فقہ و فتاویٰ
پینشن بیچنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
سوال :
گورنمنٹ سرونٹ جب سبکدوش ہوتے ہیں تو حکومت کی جانب سے وہ پینشن کے حقدار قرار پاتے ہیں جو انہیں ماہانہ ادا کی جاتی ہے ۔
حکومت کی پالیسی کے مطابق پینشنر اپنی پینشن کا چالیس فیصد تک کا حصہ اپنی مرضی سے بیچ سکتا ہے ،اسے پینشن کا بیچنا (commutation of pension ) کہتے ہیں ۔اس کے عوض پینشنر کو ایک اندازے کے مطابق چالیس فیصد حصہ کے سو گنا تک رقم پیشگی ادا کر دی جاتی ہے لیکن اس کے بدلے میں پینشن کا چالیس فیصد حصہ پندرہ سال(180ماہ) تک روک دیا جاتاہے ۔ اگر پندرہ سال سے پہلے ہی پینشنر کی وفات ہوجاتی ہے تو حکومت کی جانب سے کوئی رقم وصول نہیں کی جاتی۔ مثال:
(1) زید کی پینشن 2500 روپے مقرر کی گئی ۔
(2 ) زید اپنی پینشن کا چالیس فیصد تک حصہ یعنی 1000روپے تک بیچ سکتا ہے ۔
(3) اس کے عوض زید کو 1000 کا تقریبا سو گنا یعنی ایک لاکھ روپے پیشگی وصول ہونگے ۔
(4) لیکن اب زید کو پندرہ سالوں تک 2500 روپے کی بجائے 1500 پینشن ملینگی ۔
(5) یعنی حکومت زید سے پیشگی رقم ایک لاکھ کے عوض پندرہ سال میں ایک لاکھ اسی ہزار روپے (180000) وصول کرےگی ۔
(6) لیکن اگر پندرہ سال سے قبل ہی زید کی وفات ہوجاتی ہے تو ذید کے اہل خانہ سے کوئی رقم وصول نہیں کی جائےگی ۔
(7) حکومت کی پالیسی کے مطابق زید کو پینشن بیچنا لاذمی نہیں ہے ۔
ایسی صورت میں اگر کوئی شخص اپنی پینشن بیچ کر پیشگی رقم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس عمل کی شرعی حیثیت کیا ہونگی ۔ کیا یہ لیں دین سود ی عمل ہوگا؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائے۔
سائل : عبد اللہ
جواب :
الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی أشرف الأنبیاء والمرسلین، ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین، وبعد: الجواب بعون الله الوهاب.
صورت مسؤولہ میں واضح ہوکہ: مذکورہ معاملہ شریعت کی رو سے ناجائز ہے، کیونکہ:
اولاً: اس میں سود کی دونوں شکلیں (ایک جنس کی چیز کو کمی بیشی کے ساتھ بیچنا اور اُدھار بیچنا) پائی جاتی ہیں:
چنانچہ کمپنی پینشنر سے ایک لاکھ کے عوض ایک لاکھ اَسی ہزار روپئے وصول کرتی ہے، یہ ایک ہی جنس کی مالیت کو کمی بیشی کے ساتھ بیچنا ہے۔
اسی طرح پینشنر چالیس فیصد حصے کو اُدھار کے عوض بیچتا ہے جو خریدار کو کمپنی سے بعد میں ملے گا، جبکہ یہ رقم اُسے خریدار سے نقد مل جاتی ہے۔
یہ دونوں ہی شکلیں سود کہلاتی ہیں اور احادیث رسول ﷺ میں دونوں صریح الفاظ میں ممنوع ہیں ، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
’’لا تبيعوا الذهب بالذهب، إلا مثلا بمثل، ولا تشفوا بعضھا على بعض، ولا تبيعوا الورق بالورق، إلا مثلا بمثل، ولا تشفوا بعضھا على بعض، ولا تبيعوا منھا غائبا بناجز‘‘.(صحیح مسلم، حدیث: ۱۵۸۴)۔
سونے کو سونے کے بدلے برابر سرابر ہی بیچو، اس میں ایک دوسرے سے کمی بیشی نہ کرو، اور چاندی کو چاندی کے بدلے برابر سرابر ہی بیچو، اس میں ایک دوسرے سے کمی بیشی نہ کرو، اور اس میں کسی اُدھار کو نقد سے نہ بیچو۔
اسی طرح ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ میرے کانوں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا:
’’لا تبيعوا الذهب بالذهب، ولا تبيعوا الورق بالورق، إلا مثلا بمثل، ولا تشفوا بعضه على بعض، ولا تبيعوا شيئا غائبا منه بناجز، إلا يدا بيد‘‘.(صحیح مسلم، حدیث: ۱۵۸۴)
سونے کو سونے کے بدلے اور چاندی کو چاندی کے بدلے برابر سرابر ہی بیچو،اس میں آپس میں کمی بیشی نہ کرو، نہ اس میں سے کسی ادھار کو نقد کے بدلے بیچو، الا یہ کہ ہاتھوں ہاتھ ہو۔
ایک روایت میں الفاظ یہ ہیں:
’’لا تبيعوا الذهب بالذهب، ولا الورق بالورق، إلا وزنا بوزن، مثلا بمثل، سواء بسواء’’(صحیح مسلم، حدیث: ۱۵۸۴)۔
سونے کو سونے کے عوض اور چاندی کو چاندی کے عوض نہ بیچو ، سوائے برابر وزن کے ساتھ، بالکل یکساں، اور بالکل برابر۔
عثمان غنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’لا تبيعوا الدينار بالدينارين، ولا الدرهم بالدرهمين“ (صحیح مسلم، حدیث: ۱۵۸۵)۔
ایک دینار کو دو دیناروں کے بدلے نہ بیچو، نہ ایک درہم کو دو درہموں کے بدلے۔
صحیح بخاری میں حضرات براء بن عازب اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہما کی تجارت کا واقعہ منقول ہے، چنانچہ ابو المنہال بیان کرتے ہیں کہ میں نے براء بن عازب اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے ’’صرف‘‘(سونے کو سونے کے بدلے یا چاندی کو چاندی کے بدلے خریدو فروخت کرنے) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا:
’’كُنَّا تَاجِرَيْنِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم ، فَسَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنِ الصَّرْفِ، فَقَالَ: إِنْ كَانَ يَدًا بِيَدٍ فَلاَ بَأْسَ، وَإِنْ كَانَ نَسَاءً فَلاَ يَصْلُحُ “(صحيح البخاري، حدیث: ۲۰۶۰، نیز دیکھئے: ۲۴۹۷)۔
ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں تجارت کرتے تھے لہٰذا ہم نے رسول اللہ ﷺ سے’’صرف‘‘ کےبارے میں پوچھاتو آپ ﷺ نے فرمایا: اگر ہاتھوں ہاتھ ہو تو کوئی حرج نہیں، اور اگر ادھار ہو تو درست نہیں ہے۔
اور دوسری روایت میں فرمایا:’’مَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ، فَخُذُوهُ وَمَا كَانَ نَسِيئَةً فَذَرُوهُ’’ (جو ہاتھو ہاتھ ہو اُسے لے لو، اور جو ادھار ہو اُسے چھوڑ دو)۔
انیاً: اس معاملہ میں دوسری قباحت یہ ہےکہ اس میں ایک ایسی چیز کو فروخت کیا جارہا ہے جو بیچنے والے کے پاس موجود نہیں ہے، اور ایسی چیزکو بیچنا منع ہے۔ چنانچہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ! ایک شخص مجھ سے بیچنے کا مطالبہ کررہا ہے ، جبکہ وہ چیز ابھی میرے پاس موجود نہیں ہے، تو کیا میں اُس چیز کوبیچ سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ ‘‘.(جو چیز تمہارے پا س نہ ہو اُسے نہ بیچو) (سنن ابن ماجہ،حدیث:۲۱۸۷، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے)۔
ثالثاً: آج کل دنیا کے مختلف ممالک میں رائج کرنسیوں کا حکم بھی وہی ہے جو درہم ودینار کا ہے، جیساکہ مخفی نہیں۔
لہٰذا مذکورہ معاملہ شریعت کی رو سے ناجائز ہے، اور چونکہ حکومت کی پالیسی کے مطابق پینشن بیچنا لازمی بھی نہیں ہے اس لئے اس معاملہ سے اجتناب کیا جائے۔
کتبہ : ابو عبد اللہ عنایت اللہ بن حفیظ اللہ المدنی
تاریخ : 24/10/2023