رسول ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: "تم لوگ جماعت کو لازم پکڑو اور فرقہ بندی سے بچو، ... جو شخص جنت کے درمیانی حصہ میں جانا چاہتا ہو وہ جماعت سے لازمی طور پر جڑا رہے"۔

[سنن الترمذی: ٢١٦٥، وصححه الألباني]

پروگرام کے پوسٹرس
تازہ ترین ویڈیو
زائرین کی تعداد   : 0

پریس رلیز

اعتدال و وسطیت، باہمی تال میل و تعاون اور مذہبی رواداری پر زور کے ساتھ مکہ مکرمہ میں منعقدہ دو روزہ عالمی کانفرنس اہم قرار دادوں کی منظوری کے ساتھ اختتام پذیر عبدالسلام سلفی

اسلامی اداروں اور علماء و مشائخ کے درمیان رابطے، تال میل، یکجہتی اور مذہبی رواداری کی شدید ضرورت اور اسے مزید فروغ دینے کے احساس و تلقین کے ساتھ کانفرنس اختتام پذیر ہوئی۔

۱۳-۱۴؍ اگست۲۰۲۳ء میں دو دنوں پر مشتمل یہ عالمی کانفرنس جو ’’تواصل وتکامل‘‘ کے مرکزی عنوان سے منعقد ہوئی اسے خادم الحرمین ملک سلمان بن عبدالعزیز ال سعوداور ان کے ولی عہد امیر محمد بن سلمان بن عبدالعزیز ال سعود حفظہم اللہ کی سرپرستی و تائید حاصل تھی جس کی عمومی صدارت ’’وزارۃ الشئون الاسلامیہ والدعوۃ والارشاد‘‘ ریاض کے وزیر گرامی قدر جناب ڈاکٹر عبداللطیف ابن عبدالعزیز ال شیخ حفظہ اللہ نے فرمائی۔

’’وزارۃ الشئون الاسلامیہ‘‘ یہ منسٹری مملکت سعودی عرب کی سرپرستی میں اپنے قیام سے آج تک ملت اسلامیہ کی فلاح و بہبود، اس میں اتحاد و یگانگت، اعتدال و وسطیت اور باہمی تعاون کےلئے شب و روز کوشاں ہے۔ یہ سب اسے اللہ کی توفیق کے بعد ہی حاصل ہے۔

یہ کانفرنس بھی انھیں مبارک سلسلے کو آگے بڑھانے کی ایک بڑی کوشش ہے۔ جس میں ۸۵؍ملکوں سے ۱۵۰؍ علماء ومشائخ اور ذمے داران مراکز و جمعیات نے شرکت فرمائی۔

شریک کانفرنس صدر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی مولانا عبدالسلام سلفی نے مکہ مکرمہ سے ممبئی پہنچنے کے بعد اپنے اخباری بیان میں بتایا کہ اس عظیم الشان کانفرنس میں شریک علماء ومشائخ اور روساء مراکز اسلامیہ کے جاری گرانقدر رول اور ان کی ذمہ داریوں پر بھرپور گفتگو ہوئی ساتھ ہی کتاب وسنت کی ہدایات اور سلف صالحین کے راستہ پر چلتے ہوئے ہر طرح کی مذموم فرقہ بندی ، تشدد اورآپسی ٹکراؤ سے بچنے کی تلقین کی گئی اور صراحت کے ساتھ یہ بات کہی گئی کہ دنیا میں کامیابی اور آخرت میں نجات کی راہ یہی ہے۔

شرکاء کانفرنس نے باتفاق رائے اعتدال اورملت اسلامیہ میں اتحاد اور انسانی برادری کے لئے مملکت سعودی عرب کی ہمہ جہت کوششوں کو سراہا اور دنیا بھر کی طرف سے ان کی خدمات پر ملنے والی تائید و تحسین پر مملکت سعودی عرب اور اس کے حکمرانوں کومبارکباد دی اور ملت وانسانیت کے لئے مزید جدو جہد کی توفیق کے لئے شرکاء نے دعائیہ کلمات کہے ۔

علماء مشائخ نے کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر وزارت الشئون الاسلامیہ کے وزیر دکتور عبداللطیف آل شیخ ،اس کے ترجمان اور سارے کارکنان کا ان کے حسن انتظام اور کامیابی تک پہنچانے کی لمبی جدوجہد اور کوششوں کو قبولیت بارگاہ الٰہی کے لئے دعائیں کیں۔

قرار داد: مولانا عبدالسلام سلفی نے اس بیان کے ساتھ کانفرنس میں منظور قرار داد جو درج ذیل ہے اسے بھی ارسال کیا۔

منجانب: دفتر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی

کانفرنس اسلامی امور کےتئیں دینی امور کے شعبوں کے درمیان مزید باہمی روابط ، باہمی تکمیل وتعاون اورگہری حصہ داری کی دعوت دیتی ہے اور دعوتی اسلوب گفتگو اور تعلیمی نصاب میں وسطیت اور اعتدال کے منہج کومضبوط کرنے کی بابت دنیا میں موجود دینی شعبوں کواپنی ذمہ داری ادا کرنے پر زور دیتی ہے۔

خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود حفظہ اللہ کی سرپرستی میں آج بروز پیر ’’دنیا میں موجود دینی امور ، افتاء و دعوتی شعبوں اور اس قسم کے دیگر اداروں کے درمیان باہمی روابط اور تال میل‘‘ کے عنوان سے منعقد کانفرنس کی سرگرمیاں اختتام پذیر ہوئیں، جو مکہ مکرمہ میں’’تواصل و تکامل‘‘ کے عنوان سے ۲۶-۲۷؍محرم ۱۴۴۵ھ مطابق ۱۳-۱۴؍اگست ۲۰۲۳ء کو وزارت برائے اسلامی امور و دعوت و ارشاد کے زیر اہتمام منعقد ہوئی تھی، اس کانفرنس میں دنیا بھر کے پچاسی ممالک کے ڈیڑھ سو علماء مفتیان شریک ہوئے اور انہوں نے سات مجلسوں میں اپنی علمی مقالات پیش کئے۔

کانفرنس میں حسب ذیل قراردادیں منظور کی گئیں:

۱۔ خادم حرمین شریفین اوران کے ولی عہد کی خدمت میں ہدیہ تشکر وامتنان اور عظیم الشان خدمات کے حسن اعتراف کا پیغام اس بات پر کہ شاہ موصوف (اللہ آپ کی تائید و نصرت فرمائے )نے اپنی زیر سر پرستی و نگرانی اس عظیم الشان کانفرنس کے انعقاد کی منظوری عطافرمائی۔

۲۔ کانفرنس میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت نیز دنیا میں موجود دینی امور ، افتاء اور دعوتی شعبوں کے درمیان باہمی روابط اور تال میل قائم کرنے اور ان کے درمیان باہمی تعاون کوحتمی بنانے کی خاطر ٹھوس اقدامات کرنے پر مملکت سعودی عرب کی سربراہی کی جانب سے جو کچھ عظیم کارنامے انجام دئیے گئے ہیں اوردیئے جارہے ہیں ان کی اہمیت وعظمت کو اجاگر کیا گیا۔

۳۔ کانفرنس اسلام اور مسلمانوں کی خدمت، اسلامی وحدت کی پائیداری ، فرقہ بندی اور اختلاف کے خاتمہ اور مختلف ممالک کے درمیان باہمی رواداری و نرمی اور بقاء باہم کی قدروں کو مستحکم کرنے کی بابت دنیا میں موجود دینی امور ، افتاء اور دعوتی شعبوں کی جانب پیش کردہ کوششوں کی سراہنا کرتی ہے ۔

۴۔ کانفرنس اسلامی امور کی بابت دنیا میں موجود دینی امور ، افتاء اور دعوتی شعبوں کے درمیان مزید باہمی روابط ، تکامل اور گہری حصہ داری کی دعوت دیتی ہے جس سے مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کی حقیقی فضا قائم ہوسکے۔

۵۔ کانفرنس اس بات پر زور دیتی ہے کہ اسلامی اتحاد و یگانگت کی عمارت کی پہلی اینٹ وہ ’’توحید‘‘ ہے جس کی تمام رسولوں نے اپنی قوموں کو دعوت دی ہے۔

۶۔ کانفرنس اس بات پر زور دیتی ہے کہ کتاب و سنت پر مضبوطی سے کاربند رہنا دین کی اصل وبنیاد ہے اور انہی دونوں میں انحراف و گمرہی سے حفاظت و نجات ہے۔ نیزفتنوں سے نجات کے لئے صحیح فہم کے مطابق ان دونوں کو مضبوطی سے تھامے رہنا ضروری ہے۔

۷۔ فتویٰ کا خصوصی اہتما م اور اُسے نصوص شریعت کے مطابق منظم ومستحکم کرنا ناگزیر ہے، جس سے مصالح پیدا ہوں اور مفاسد ٹلیں،نیز فتویٰ اس کے اہل لوگوں سے حاصل کرنا اور شاذ فتاؤوں سے بچنا ضروری ہے۔

۸۔ کانفرنس میں اس پہلو پر بھی زور دیا گیا کہ دنیا میں موجود دینی امور ، افتاء اور دعوتی شعبوں کی ذمہ دار ی ہے کہ دعوتی اسلوب اور تعلیمی نصاب میں اعتد ال و وسطیت کا منہج مضبوط کریں، اسی طرح ائمہ مساجد اور خطباء کی ٹریننگ اور انہیں اس کا اہل بناکربھی ، نیز اس سلسلہ میں مسلسل پروگرام ترتیب دیں اورغلو، دہشت گردی اور زوال وبگاڑ کا ڈٹ کرمقابلہ کریں۔

۹۔ کانفرنس میں یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ خاندان کی دیکھ بھال کرنا ، نسل نوکو فتنوں سے بچانا اور ایسے اصول واقدار فروغ دینا ضروری ہے جس سے مسلم معاشروں کو الحاد وزوال کی لہروں سے تحفظ کی ضمانت حاصل ہوسکے۔ اس کے لئے ایسے پروگرام بنانے ہوں گے جو ان فتنوں سے بچاؤ اور صحیح علاج پر مرکوز ہوں۔

۱۰۔ اسلام کے رخ زیبا کو داغدار کرنے والی کوششوں کا مقابلہ کرنا اور اس کی حقیقی رواداری ، رحمت اور عدل واضح کرنانیز اسلام میں ظلم و زیادتی کو حرام قرار دینے کی وضاحت کرنا واجب ہے۔ اسی طرح انتہاء پسندطبقوں کے منحرف مناہج و افکار کو بے نقاب کرنا نیز یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ انھوں نے اسلام پر کس قدر زیادتی کی ہےاور اسلامی معاشروں میں فتنوں اور فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے، لاقانونیت پھیلانےنیز اسلامی معاشروں سے امن وسلامتی غارت کرنے میں ان فرقوں کے کیا اثرات ہیں۔

۱۱۔ کانفرنس قرآن کریم کے نسخوں کو نذر آتش کرنے کی بابت گھناؤنے کاموں اور بار بار کرنے کی حددرجہ مذمت کرتی ہے، ساتھ ہی اس بات پر زور دیتی ہے کہ ان جیسے گھناؤنے کام نفرت، قطع تعلق اور قومیت وعنصریت پر ابھارتے ہیں اور مشترکہ انسانی اصولوں سے ٹکراتے ہیں۔

۱۲۔ کانفرنس دنیا میں موجود دینی امور ، افتاء اور دعوتی شعبوں کے درمیان باہمی روابط اور تال میل قائم کرنے اور وسطیت و اعتدال کے اصولوں کو عام کرنے کی بابت مملکت سعودی عرب کی وازرت برائے اسلامی امور و دعوت و ارشاد کی کوششوںکی سراہنا کرتی ہے۔

۱۳۔ شرکاء کانفرنس اس کے موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اور مشترک اسلامی کام میں کوششوں کو مربوط اور ہم آہنگ کرنے کی ضرورت کے باعث اسے گاہے بگاہے منعقد کرتے رہنے کی خواہش کرتے ہیں۔

قرآن وسنت سے وابستگی اور جامعات ومدارس کے طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لئے صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے زیر اہتمام اپنی نوعیت کا عظیم الشان تعلیمی انعامی مسابقہ

بتاریخ: ۱۹-۲۰؍اگست ۲۰۲۳ء کو پورے تزک واحتشام سے انعقاد پذیرہونے جارہا ہے

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے زیر اہتمام ایک عظیم الشان تعلیمی انعامی مسابقہ برائے حفظ قرآن کریم وکتاب التوحید إن شاء اللہ العزیز پورے تزک و احتشام کے ساتھ بتاریخ ۱۹-۲۰؍اگست ۲۰۲۳ءجامع مسجد اہل حدیث کاپڑیا نگر میں انعقاد پذیر ہوگا۔ جس میں شہر ممبئی اور مضافات کے مدارس و جامعات اور شعبہ تحفیظ القرآن کے کم وبیش ۳۱۸؍ طلباء شریک ہوں گے۔

زمرہ اول :مکمل حفظ قرآن، زمرہ دوم: بیس پارے، زمرہ سوم: دس پارے اور زمرہ چہارم: ناظرہ قرآن مجید پر مشتمل ہے اور ساتھ ہی زمرہ پنجم: میں شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی معروف ومنفرد کتاب ’’کتاب التوحید‘‘ متن و ترجمہ کا حفظ بھی شامل ہے إن شاء اللہ ممبئی و بیرون ممبئی ملک کے معروف قراء اور علماء تمام مشارکین کا حسب جدول امتحان لیں گے اور مسلسل دو دنوں تک یہ مسابقاتی امتحان کاپڑیا نگر مسجد میں جاری رہے گا۔ اور إن شاء اللہ کامیاب ہونے والے طلباء کے مابین ۲۷؍ اگست کو حج ہاؤس میں معزز علماء وسماجی و سیاسی شخصیات کی حاضری میں انعامات تقسیم کئے جائیں گے یاد رہے کہ صوبائی جمعیت نے قرآن مقدس اور اس کے حفظ جیسے عظیم عمل پر حوصلہ افزائی کے لئے گرانقدر انعامات بھی رکھے ہیں۔اللہ تعالیٰ سارے شرکاء ومعاونین اور ہم سب کو نیک عمل کی توفیق دے۔ساتھ ہی قرآن مقدس اور اس کی عظمت کو اجاگر کرنے کی توفیق اور سعادت بخشے۔اور ہمیں ان اللہ والوں میں شامل فرمائے جو قرآن کے علم وحفظ کے ساتھ اس کے پیغام وہدایت پر عمل کرتے ہوئے اس پر سب کو چلنے کی تلقین کرتے ہیں ۔

منجانب: دفتر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی

انسانیت کی نجات اور امن وشانتی کی ضمانت توحید و سنت میں ہے۔

توحید کی عظمت اور اس کی نوع بہ نوع برکات کی وضاحت کے لئے ایک عظیم الشان کانفرنس

دنیائے انسانیت کی روحیں نجات کی متلاشی اور امن و شانتی کے لئے بے چین ہیں لیکن آج چین و سکون کے لئے بےچینی وبے قراری کو بڑھاوا دینے والے اسباب وو سائل استعمال کئے جا رہے ہیں ۔ کہیں تفریح کے نام پر بے حیائی وبے پردگی عام ہورہی ہے ، کہیں آزادی کے نام پر سارے آداب، احترام اور حقوق تباہ کئے جا رہے ہیں، کہیں نظم و ضبط کے نام پر تشدد اور ظلم وزیادتی کوروا رکھا جا رہا ہے ۔ آج دنیا میں جاری تمام دستور سکون وشانتی فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ جبکہ مسئلہ کا اصل حل اسلام اور توحید وسنت کے عقیدہ اور اس کے تمسک میں ہے۔ دنیا و آخرت کی کامیابی اسی میں مضمر ہے۔

یہ عظمتِ توحید کانفرنس اسی مقصد کے لئے منعقد ہو رہی ہے کہ اپنوں اور برادران وطن تک یہ میسیج پہنچایا جائے کہ انسان کی سب سے بڑی اور اصل ضرورت توحید ہے۔ کیونکہ تمام انسانوں کا حقیقی رب ہی امن و امان اور سماجی انصاف کا سبب اور باعث ہو سکتا ہے۔ صرف اسی کی بندگی سے ہی قدروں اور حقوق کا احترام ممکن ہے ۔

یہ باتیں مولانا عبد السلام سلفی صدر کانفرنس نے اپنے ایک بیان میں پریس کو بتائی ہیں۔ آگے انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کو ملک و بیرون ملک سے تشریف لانے والے بڑے بڑے علماء اور ایکسپرٹس خطاب کریں گے۔

یہ کانفرنس صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی و مسجد بائیکلہ اہل حدیث جماعت مومن پورہ ممبئی کے اشتراک سے منعقد ہورہی ہے۔ اس کے تمام اراکین بلا تفریق مذہب و مسلک عوام و خواص سے شرکت کی اپیل کر رہے ہیں ۔

کانفرنس جھولا میدان وجامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ ممبئی میں یکم جنوری ۲۰۲۳ء؁ بروز اتوار صبح ساڑھے دس بجے تا دس بجے شب منعقد ہو رہی ہے ۔

منجانب : دفتر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کا سالانہ تربیتی اجتماع کامیابی سے اختتام پذیر ہوا

(27 نومبر 2022) جامع مسجد اہل حدیث، کاپڑیا نگر، کرلا میں منعقد ہونے والے سالانہ تربیتی اجتماع میں ملک وبیرون ملک سے کبار علماء شریک‌ ہوئے۔ صبح نو بجے سے شروع ہوکر رات آٹھ بجے تک چلنے والے اس اجتماع میں کل چار نشستیں ہوئیں جن کی نظامت بالترتیب شیخ عبید اللہ سلفی، شیخ عاطف سنابلی، شیخ عبدالجلیل مکی اور شیخ عبدالرشید سلفی نے کی اور صدارت شیخ صلاح الدین مقبول مدنی، شیخ الطاف حسین فیضی، ڈاکٹر عبدالقیوم بستوی مدنی اور شیخ عبدالمعید مدنی صاحبان نے کی۔

اجتماع کا‌آغاز شیخ ظہیرالدین سنابلی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اس کے بعد امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی شیخ عبدالسلام سلفی نے خطبۂ استقبالیہ پیش‌کیا۔ محاضرین علماء میں شیخ ارشد سکراوی، شیخ کفایت اللہ سنابلی، شیخ انصار زبیر محمدی، شیخ نثار احمد مدنی، شیخ مصطفیٰ اجمل مدنی، شیخ ابورضوان محمدی، شیخ ابو زید ضمیر، شیخ سرفراز فیضی، شیخ عنایت اللہ مدنی، شیخ خالد جمیل مکی اور شیخ ظفرالحسن مدنی نے بالترتیب پہلی نشست میں متعینہ موضوعات پر محاضرے پیش کیے۔ صدارتی خطاب کے بعد اس نشست کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔

ظہر کی نماز کے بعد کھانے کا وقفہ تھا۔ دوسری نشست تین بجے شروع ہوئی جس میں ڈاکٹر اجمل منظور مدنی، ڈاکٹر محمد نسیم مدنی اور شیخ عبدالشکور مدنی کے محاضرے تھے۔ اس نشست کا اختتام شیخ الطاف حسین فیضی کے صدارتی خطاب پر ہوا۔ تیسری نشست میں شیخ عبدالرشید سلفی کے محاضرہ کے بعد ڈاکٹر عبدالقیوم بستوی مدنی کا صدارتی خطاب (بعنوان منہج سلف: اصول و ضوابط) ہوا اور یہ نشست بھی ختم ہوئی۔

اجتماع کی چوتھی اور آخری نشست میں ڈاکٹر عبیدالرحمن مدنی اور شیخ عبدالحکیم مدنی کا محاضرہ ہوا۔ اور پھر اس نشست کا صدارتی خطاب اور اجتماع کا آخری خطاب شیخ عبدالمعید مدنی کا تھا۔ ناظم نشست کی دعاؤں پر مجلس کے اختتام کا اعلان کردیا۔

محاضرین علماء نے صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے اراکین بالخصوص امیر جمعیت شیخ عبدالسلام سلفی کو تربیتی اجتماع کے انعقاد پر مبارکباد دی اور سراہا جو مسلسل کئی سالوں سے منعقد ہوتا رہا ہے۔ کووڈ کی وجہ سے اس تسلسل میں دو سال رکاوٹ آئی تھی۔ اس سے پہلے آخری بار ۲۰۱۹ میں یہ اجتماع منعقد ہوا تھا۔

حالات کی ضرورت کے پیش نظر متعینہ موضوعات، منتخب علماء کرام اور ممبئی و مضافات ممبئی سے مساجد کے ائمہ و دعاۃ کی شرکت اور اجتماع کے نظم و نسق کو دیکھتے ہوئے جو تاثرات لوگوں نے تحریری و تقریری طور پر ظاہر کیے اس سے پتہ چلتا ہے کہ صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والا یہ تربیتی اجتماع دن بدن بہتر ہوتا جارہا ہے۔

امیر جمعیت شیخ عبدالسلام سلفی صاحب نے کہا کہ اس اجتماع کے انعقاد میں ملنے والی توفیق پر ہم اللہ کے شکر گزار ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ رب العالمین ہماری کوششوں کو قبول فرمائے اور جمعیت کی سرگرمیوں کو علماء و عوام سب کے لیے مفید بنائے۔

منجانب : دفتر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئ

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کا سالانہ تربیتی اجتماع کامیابی سے اختتام پذیر ہوا

(27 نومبر 2022) جامع مسجد اہل حدیث، کاپڑیا نگر، کرلا میں منعقد ہونے والے سالانہ تربیتی اجتماع میں ملک وبیرون ملک سے کبار علماء شریک ہوئے۔ صبح نوبجے سے شروع ہوکر رات آٹھ بجے تک چلنے والے اس اجتماع میں کل چار نشستیں ہوئیں جن کی نظامت بالترتیب شیخ عبید اللہ سلفی، شیخ عاطف سنابلی، شیخ عبدالجلیل مکی اور شیخ عبدالرشید سلفی نے کی اور صدارت شیخ صلاح الدین مقبول مدنی، شیخ الطاف حسین فیضی، ڈاکٹر عبدالقیوم بستوی مدنی اور شیخ عبدالمعید مدنی صاحبان نے کی۔

اجتماع کا‌آغاز شیخ ظہیرالدین سنابلی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اس کے بعد امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی شیخ عبدالسلام سلفی نے خطبۂ استقبالیہ پیش‌کیا۔ محاضرین علماء میں شیخ ارشد سکراوی، شیخ کفایت اللہ سنابلی، شیخ انصار زبیر محمدی، شیخ نثار احمد مدنی، شیخ مصطفیٰ اجمل مدنی، شیخ ابورضوان محمدی، شیخ ابو زید ضمیر، شیخ سرفراز فیضی، شیخ عنایت اللہ مدنی، شیخ خالد جمیل مکی اور شیخ ظفرالحسن مدنی نے بالترتیب پہلی نشست میں متعینہ موضوعات پر محاضرے پیش کیے۔ صدارتی خطاب کے بعد اس نشست کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔

ظہر کی نماز کے بعد کھانے کا وقفہ تھا۔ دوسری نشست تین بجے شروع ہوئی جس میں ڈاکٹر اجمل منظور مدنی، ڈاکٹر محمد نسیم مدنی اور شیخ عبدالشکور مدنی کے محاضرے تھے۔ اس نشست کا اختتام شیخ الطاف حسین فیضی کے صدارتی خطاب پر ہوا۔

تیسری نشست میں شیخ عبدالرشید سلفی کے محاضرہ کے بعد ڈاکٹر عبدالقیوم بستوی مدنی کا صدارتی خطاب (بعنوان منہج سلف: اصول و ضوابط) ہوا اور یہ نشست بھی ختم ہوئی۔

اجتماع کی چوتھی اور آخری نشست میں ڈاکٹر عبیدالرحمن مدنی اور شیخ عبدالحکیم مدنی کا محاضرہ ہوا۔ اور پھر اس نشست کا صدارتی خطاب اور اجتماع کا آخری خطاب شیخ عبدالمعید مدنی کا تھا۔ ناظم نشست کی دعاؤں پر مجلس کے اختتام کا اعلان کردیا۔

محاضرین علماء نے صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے اراکین بالخصوص امیر جمعیت شیخ عبدالسلام سلفی کو تربیتی اجتماع کے انعقاد پر مبارکباد دی اور سراہا جو مسلسل کئی سالوں سے منعقد ہوتا رہا ہے۔ کووڈ کی وجہ سے اس تسلسل میں دو سال رکاوٹ آئی تھی۔ اس سے پہلے آخری بار ۲۰۱۹ میں یہ اجتماع منعقد ہوا تھا۔

حالات کی ضرورت کے پیش نظر متعینہ موضوعات، منتخب علماء کرام اور ممبئی و مضافات ممبئی سے مساجد کے ائمہ و دعاۃ کی شرکت اور اجتماع کے نظم و نسق کو دیکھتے ہوئے جو تاثرات لوگوں نے تحریری و تقریری طور پر ظاہر کیے اس سے پتہ چلتا ہے کہ صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والا یہ تربیتی اجتماع دن بدن بہتر ہوتا جارہا ہے۔

امیر جمعیت شیخ عبدالسلام سلفی صاحب نے کہا کہ اس اجتماع کے انعقاد میں ملنے والی توفیق پر ہم اللہ کے شکر گزار ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ رب العالمین ہماری کوششوں کو قبول فرمائے اور جمعیت کی سرگرمیوں کو علماء و عوام سب کے لیے مفید بنائے۔

منجانب: دفتر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کی طرف سے راحت رسانی کا کام مسلسل جاری ہے، چند دنوں بعد ذمہ داران جمعیت کا ایک وفد دوبارہ دورہ کرے گاان شاء اللہ

ضلع رائے گڑھ اور رتناگیری کے سیلابی آفت کے شکار شہرچپلون، مہاڈ ، کھیڈ اور ان کے مضافاتی علاقوں میں اللہ کی توفیق کے بعد اہل خیر کے تعاون سے جمعیت ریلیف کا کام اول دن سے کررہی ہے۔ ذمے داران جمعیت کے پہلے دورہ کے بعد اب تک کئی ایک راؤنڈ میں راحتی سامان کے ساتھ نقدی رقم اور چیک حسب گنجائش پہنچایا گیا ہے۔ ہمارے احباب شب وروز اپنی امکانیات کے ساتھ راحت کے کام میں لگے ہیں۔ ابھی جمعیت کے اہم رکن اور روشنی ایجوکیشنل ٹرسٹ کے ذمے دار جناب مقصود علاؤالدین سین بحیثیت نگران مراکز ریلیف تین روزہ دورہ کرکے 9؍اگست کو ممبئی واپس آئے ہیں۔ انھوں نے بھی اس دورہ میں روشنی ٹرسٹ کے سرگرم کارکنان کے ساتھ ایک خاص تعداد میں متاثرین تک تعاون پہنچایا ہے۔ یاد رہے کہ روشنی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئرٹرسٹ کے مقامی کارکنان زمینی سطح پر تقاضوں کے مطابق اللہ کے فضل سے کام کررہے ہیں۔ اور صوبائی جمعیت کا ان کے ساتھ مسلسل رابطہ اور مشورہ جاری رہتا ہے۔ ان کی وجہ سے بیرونی ریلیف کو مستحقین تک پہنچانے میں بڑی آسانی ہوگئی ہے۔ فللہ الحمد

کل 10؍اگست 2021 کو صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے دفتر میں جمعیت کے اہم ذمے داران کی ایک نشست ہوئی جس میں ریلیف کی پچھلی کوششوں کا مختصر جائزہ کے ساتھ آئندہ کی ترتیب پر غور کیا گیا اور یہ طے کیا گیا کہ چند دنوں بعد ایک وفد اپنے میسر امکانیات، اسباب اور تعاون کے ساتھ دورہ کرے اور چپلون، مہاڈ اور کھیڈ میں روشنی ٹرسٹ کے ذمے داروں کے سروے کے مطابق اشیاء ضروریہ اور رقم پہنچانے کا کام کرے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔آپ حضرات سے اس مسلسل راحتی مشن میں تعاون جاری رکھنے کی اپیل ہے۔ اللہ تعالیٰ سیلاب متاثرین کو جلد از جلد کھڑا کرے اور ہم سب کے تعاون اور کوششوں کو قبول فرمائے۔

(منجانب: دفتر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی)

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کا دوسرا وفد کوکن سیلاب متاثرین کی امداد کے بعد اپنے دو روزہ دورہ سے واپس ہوا

کوکن کے حالیہ تباہ کن سیلاب کے بعد صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کی جانب سے متاثرین کی بازآباد کاری کا سلسلہ منظم طریقے سے جاری ہے۔ صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے امیر فضیلۃ الشیخ عبدالسلام سلفی کی قیادت میں ایک وفد نے 19,18 ؍اگست 2021 بروز بدھ اور جمعرات مہاڈ ،کھیڈ اور چپلون کے علاقوں کا دو روزہ دورہ کیا۔ اس وفد میں جناب عبدالحمید خان، مولانا عبد الجلیل مکی ، جناب مقصود علاؤالدین سین، جناب منور عثمان پٹھان اور مولانا جلال الدین محمدی شامل تھے۔ روشنی گروپ اور مقامی ذمہ داروں کی جانب سے متاثرین کو تین گروہ میں تقسیم کرکے ان کی فہرست امیر جمعیت کو پیش کی گئی۔ تاکہ حسب گنجائش نقصانات کا ازالہ کرنے اور لوگوں کو دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونے میں آسانی کے لئے کوشش کی جائے۔ دوکان یا کاروبار میں نقصان اٹھانے والوں کو پہلے گروپ میں رکھا گیا، اسی طرح سے جن کے گھروں میں نقصان ہوا ہے ان کو دوسرے گروپ میں رکھا گیا ہےاور عام متاثرین کو تیسرے گروپ میں رکھا گیا ہے۔ اور ان میں پچیس لاکھ روپئے کی مدد کا فوری ٹارگیٹ مقرر کیا گیا ہے، چپلون کی معروف سماجی شخصیت اور روشنی ٹرسٹ اور شہری جمعیت کے ذمے دارجناب یسین دلوی صاحب نے وفد کو چپلون علاقوں کی صورت حال سے آگاہ کیا ساتھ ہی انتہائی قدیم مہارشٹرا اردو ہائی اسکول کی زیارت کرائی ۔ سیلاب کی وجہ سے اسکول کی عمارت،ڈیجیٹل کلاس اور دیگر تعلیمی لوازمات ناقابل استعمال ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی اور کوکن کے منظم ادارہ روشنی ٹرسٹ کی جانب سے سوا لاکھ روپئے کا چیک اسکول کے ذمےداران کو پیش کیا گیا۔جس پر موقع پر موجود اسکول کے سارے ذمے داران نے جمعیت اورروشنی گروپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ علاقے کے ایم ایل اے جناب شیکھر نکم اور دیگر سیاسی و سماجی شخصیات نے بھی اس تعاون پر وفد کی تعریف کی اور اسی طرح علاقے میں اپنا قیمتی تعاون پیش کرتے رہنے کی درخواست بھی کی ۔یہاں پر ایک بڑی تعداد میں متاثرین برادران وطن بھی موجود تھے جنھیں چیک کے ذریعے تعاون پیش کیا گیا۔ اس کے علاوہ صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی اور روشنی گروپ کی جانب سے متاثرین میں چار سو سے زائد بہترین کباڈ (الماری) بھی تقسیم کئے جارہے ہیں۔گدے، چادر، تکیے کی تقسیم بھی بڑے پیمانے پر جاری ہے۔اسی طرح قرآن کریم کے مترجم و غیر مترجم ہزاروں نسخوں کی تقسیم کا کام بھی جاری ہے۔ الحمد للہ سیلاب متاثرہ علاقوں میں نظم و ضبط کے ساتھ امداد و تعاون کا یہ عمل لوگوں کوبے حد پسند آیا ، اور انھوں نے صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے ذمے داران اور جمعیت کی مقامی تنظیموں نیز روشنی گروپ کے ذمہ داروں کی خوب سہراہنا کی ،ملحوظ رہے کہ اس دورے سے قبل بھی صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی اور روشنی گروپ کی مشترکہ کوششوں سے لاکھوں روپئے نقد، اناج ، طبی امداد اور دیگر سامان و اسباب کی تقسیم کا عمل انعقاد میں آچکاہے۔ اور ابھی بھی یہ سلسلہ جاری ہے، آگے بھی اسی طرح تعاون کا سلسلہ اللہ کی توفیق کے مطابق جاری رہنے والا ہے۔ إن شاء اللہ۔

منجانب: دفتر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کا دوسرا وفد کوکن سیلاب متاثرین کی امداد کے بعد اپنے دو روزہ دورہ سے واپس ہوا

کوکن کے حالیہ تباہ کن سیلاب کے بعد صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کی جانب سے متاثرین کی بازآباد کاری کا سلسلہ منظم طریقے سے جاری ہے۔ صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے امیر فضیلۃ الشیخ عبدالسلام سلفی کی قیادت میں ایک وفد نے 19,18 ؍اگست 2021 بروز بدھ اور جمعرات مہاڈ ،کھیڈ اور چپلون کے علاقوں کا دو روزہ دورہ کیا۔ اس وفد میں جناب عبدالحمید خان، مولانا عبد الجلیل مکی ، جناب مقصود علاؤالدین سین، جناب منور عثمان پٹھان اور مولانا جلال الدین محمدی شامل تھے۔ روشنی گروپ اور مقامی ذمہ داروں کی جانب سے متاثرین کو تین گروہ میں تقسیم کرکے ان کی فہرست امیر جمعیت کو پیش کی گئی۔ تاکہ حسب گنجائش نقصانات کا ازالہ کرنے اور لوگوں کو دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونے میں آسانی کے لئے کوشش کی جائے۔ دوکان یا کاروبار میں نقصان اٹھانے والوں کو پہلے گروپ میں رکھا گیا، اسی طرح سے جن کے گھروں میں نقصان ہوا ہے ان کو دوسرے گروپ میں رکھا گیا ہےاور عام متاثرین کو تیسرے گروپ میں رکھا گیا ہے۔ اور ان میں پچیس لاکھ روپئے کی مدد کا فوری ٹارگیٹ مقرر کیا گیا ہے، چپلون کی معروف سماجی شخصیت اور روشنی ٹرسٹ اور شہری جمعیت کے ذمے دارجناب یسین دلوی صاحب نے وفد کو چپلون علاقوں کی صورت حال سے آگاہ کیا ساتھ ہی انتہائی قدیم مہارشٹرا اردو ہائی اسکول کی زیارت کرائی ۔ سیلاب کی وجہ سے اسکول کی عمارت،ڈیجیٹل کلاس اور دیگر تعلیمی لوازمات ناقابل استعمال ہوچکے ہیں۔ جس کی وجہ سے صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی اور کوکن کے منظم ادارہ روشنی ٹرسٹ کی جانب سے سوا لاکھ روپئے کا چیک اسکول کے ذمےداران کو پیش کیا گیا۔جس پر موقع پر موجود اسکول کے سارے ذمے داران نے جمعیت اورروشنی گروپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ علاقے کے ایم ایل اے جناب شیکھر نکم اور دیگر سیاسی و سماجی شخصیات نے بھی اس تعاون پر وفد کی تعریف کی اور اسی طرح علاقے میں اپنا قیمتی تعاون پیش کرتے رہنے کی درخواست بھی کی ۔یہاں پر ایک بڑی تعداد میں متاثرین برادران وطن بھی موجود تھے جنھیں چیک کے ذریعے تعاون پیش کیا گیا۔ اس کے علاوہ صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی اور روشنی گروپ کی جانب سے متاثرین میں چار سو سے زائد بہترین کباڈ (الماری) بھی تقسیم کئے جارہے ہیں۔گدے، چادر، تکیے کی تقسیم بھی بڑے پیمانے پر جاری ہے۔اسی طرح قرآن کریم کے مترجم و غیر مترجم ہزاروں نسخوں کی تقسیم کا کام بھی جاری ہے۔ الحمد للہ سیلاب متاثرہ علاقوں میں نظم و ضبط کے ساتھ امداد و تعاون کا یہ عمل لوگوں کوبے حد پسند آیا ، اور انھوں نے صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے ذمے داران اور جمعیت کی مقامی تنظیموں نیز روشنی گروپ کے ذمہ داروں کی خوب سہراہنا کی ،ملحوظ رہے کہ اس دورے سے قبل بھی صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی اور روشنی گروپ کی مشترکہ کوششوں سے لاکھوں روپئے نقد، اناج ، طبی امداد اور دیگر سامان و اسباب کی تقسیم کا عمل انعقاد میں آچکاہے۔ اور ابھی بھی یہ سلسلہ جاری ہے، آگے بھی اسی طرح تعاون کا سلسلہ اللہ کی توفیق کے مطابق جاری رہنے والا ہے۔ إن شاء اللہ۔

(منجانب: دفتر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی)

فقہ اکیڈمی رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے معزز رکن اور آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے ممبر معروف فقیہ اور مفتی ڈاکٹر فضل الرحمن مدنی مالیگاؤں جوار رحمت میں یہ خبر انتہائی رنج والم کے ساتھ دی جارہی ھے کہ عالم اسلام کی ایک معتبر شخصیت ڈاکٹر فضل الرحمن مدنی ایک طویل علالت کے بعد آج بتاریخ 26 مارچ 2021 بروز جمعہ رات پونے تین بجے مالیگاؤں میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔آپ جماعت اہل حدیث کے ایک مایہ ناز عالم، مربی اور مفتی کے ساتھ عالم اسلام کی نمائندہ تنظیم رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کی فقہ کونسل کے معزز رکن اور آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے ممبر تھے، برسوں سے ملک کی معروف درسگاہ جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں میں تدریسی خدمت کے ساتھ شعبہ افتاء اور علمی کمیٹی کے سربراہ تھے ۔آپکا آبائی وطن یوپی کے ضلع گونڈہ( بلرامپور) میں واقع معروف سلفی گاؤں شنکر نگرہے، یہیں 1951 ء میں آپکی ولادت ہوئی اورایک دیندار گھرانے میں پرورش وپرداخت ہوئی ۔ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کی اورعربی خامسہ تک سراج العلوم جھنڈانگر اوربونڈیہار میں مکمل کرنے کے بعد مرکزی دارالعلوم بنارس کا رخ کیا اوروہاں سے 1972 میں فراغت حاصل کی۔ اس کے بعد مدینہ یونیورسٹی سے بی اے، ایم اے اوردکتوراہ یعنی پی ایچ ڈی کی اعلی ڈگریاں حاصل کیں۔ 1988ء میں وطن واپسی کے بعد تادم حیات جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاوں سے وابستہ رہے اورہزاروں تشنگان علم و شریعت کو فیض پہونچاتے رہے ۔کئی سالوں تک آپ وہاں کے شیخ الجامعہ تھے اور مجلس علمی وافتاء کے صدر تھے۔آپکے اساتذہ میں مولانامحمد اقبال رحمانی،مولانا عبدالسلام رحمانی، مولانا عبدالمعید بنارسی، مولانا شمس الحق سلفی، مولانا عبدالحمید رحمانی، ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری ،مولانا محمد رئیس ندوی جیسے اساطین علم وفضل اوردیگر کبار شخصیات ہیں ۔عالم اسلام کی معتبر شخصیات شیخ ابن باز اورشیخ البانی نیز ڈاکٹر تقی الدین ہلالی مراکشی رحمہم اللہ سے بھی آپ نے ملاقات اورکسب فیض پایا ہے ۔عربی و اردو زبان میں آپ کی کئی تصانیف اور کتابیں ہیں ۔کافی دنوں سے دل اور سانس کا عارضہ تھا، اسپتال میں ایڈمٹ تھے ۔افاقہ ملنے کے بعد گھر پر آرام فرما تھے کہ طبیعت پھر بگڑ گئی اوردوبار ہاسپٹل ایڈمٹ ہوئے ۔مگر موت سے کس کو رستگاری ہے وقت آپہونچا اور جمعہ کی مبارک رات میں تین بجے کے قریب راہی ملک بقا ہوچلے ۔آپ کی وفا ت ملت وجماعت بالخصوص سلفیان ہند کے لئے ایک سانحہ ہے، اللہ کرے کہ یہ علمی خلا جلد پرہوسکے ۔پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ تین لڑکے اورتین بیٹیاں ہیں۔رب کریم سے دعا ہے کہ مولی آپ کو غریق رحمت فرمائے ۔ پسماندگان ومتعلقین کو صبر جمیل کی توفیق دے ۔صوبائی جمعیت بمبئی کے ذمہ داران، ارکان عاملہ وشوری دکھ کی اس گھڑی میں اللہ سے دعا گوہیں کہ جماعت کو آپکا نعم البدل عطا فرمائے ۔آپ کے حسنا ت کو قبول فرمائے اورلغزشوں کا درگذر فرمائے اورجنت میں بلند مقام عطا فرمائے ۔

میڈیا سیل صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی

سماجی انصاف اور مذہبی رواداری کے موضوع پر کانفرنس کی تیاریاں جاری

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کی جانب سے منعقدہ کانفرنس میں پورے ملک سے اہل علم ودانش اور اہم سیاسی شخصیات کی آمد متوقع

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کی جانب سے ملک کے موجودہ حالات میں سماجی انصاف اور مذہبی رواداری کی اہمیت اور ضرورت پر ایک اہم پروگرام منعقد کیا جارہا ہے ، یہ پروگرام 4؍ جنوری 2020 شام 5 بجے تا 10 بجےرات حج ہاؤس ممبئی کےآڈیٹوریم(سیکنڈ فلور) میں منعقد ہوگاان شاء اللہ ، اس پروگرام میں ملک کے مختلف حصوں سے علماء کرام ، سماجی خدمتگاران، اہم سیاسی شخصیات اور نامور صحافی حضرات موضوع پرسامعین کو مستفید فرمائیں گے ۔

فکرو نظر کا تنوع ، فہم وخیال کی رنگا رنگی ،مذاہب اور نظریات کا اختلاف ہمارے محبوب وطن ہندستان کی شناخت ہے ، وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت اس ملک کا حسن ہے ، یہ ملک ہر دور میں مختلف مذاہب اور نظریات کے حامل طبقوں کا گہوارہ رہا ہے ، ایسے مخلوط معاشرے کی بقاء اور تعمیر کے لیے تحمل، برداشت، رواداری اورمکالمہ لازم ہے ، یہی وجہ ہے کہ رواداری اور برداشت کی جڑیں اس ملک میں بہت گہری ہیں ، اس ملک کو انگریزی استبداد سے آزادی دلانے والی اور اس ملک کے دستور کی بنیاد رکھنے والی عظیم شخصیات نے بھی اس ملک کی دستور سازی کے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ حقوق کی تقسیم میں کبھی نظریات اور مذاہب کا اختلاف آڑے نہ آنے پائے ، عدل وانصاف کا فیضان ہر خاص وعام تک پہنچے ، کسی شخص کو اس کے مذہب اور نظریے کی بنیاد پر کسی طرح کے تعصب کا سامنا نہ کرنا پڑے اور یہ ملک رنگ ونسل،تہذیب وثقافت ، مذاہب ونظریات کے اختلاف کے ساتھ ترقی کی منزلیں طے کرے۔

سیکولرازم اس ملک کی روح ہے جس کی حفاظت کرنا ہر ہندستانی شہری کی بنیادی ذمہ داری ہے ، اسی ذمہ داری کی ادائیگی کےلیے یہ اہم پروگرام منعقد کیا جارہا ہے ، پروگرام کی صدارت صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے امیر مولانا عبدالسلام صاحب سلفی فرمائیں گے ، پروگرام میں کنوینر کی ذمہ داریاں مولانا عبدالجلیل مکی صاحب ادا کریں گے، پروگرام میں نشستیں محدود ہیں لہٰذا شرکت کے لیے رجسٹریشن لازمی ہے ، شرکت کے خواہش مند حضرات اس نمبر پر رابطہ کرکے اپنے ناموں کا اندراج کراسکتے ہیں۔ 919892555244+

(منجانب : دفتر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی)

ملک میں عدالتیں انصاف کا آخری سہارا ہیں، عدالتوں سے فریاد کرنے میں ذمہ دارانہ رول کی ضرورت: عبد السلام سلفیؔ

ملک کی عدالتوں میں روزانہ ان گنت مسائل کی شنوائی اور فیصلے ہوتے رہتے ہیں۔ جہاں شرعی فیصلے اور انصاف کے لیے آسمانی قانون فطرت کے لیے کوئی جگہ نہ ہووہاں اکثریت اور پاور کا عموما غلط استعمال ہوتا ہے۔ایسے میں اپنے ملک کی عدالتوں سے حق وانصاف مانگنے میں کسی بھی کوتاہی وغفلت سے بچنا بہت ضروری ہے بلکہ ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

ہمارا شب وروز کا مشاہدہ ہے کہ متحرک اور فعال ادارے بلاتردد اپنے اور مظلوموں کے مسائل کے حل کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہتے ہیں۔ انصاف نہ ملنے کی کچھ شکایتوں کے باوجود انھیں بڑی حد تک کامیابی حاصل ہوتی ہے اور متعصب میڈیا، ظالم عوام اور دیگر طاقتوں کو کورٹ کے فیصلوں سے لگام رہتی ہے۔ یہ باتیں مولانا عبد السلام سلفی صدر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی نے تبلیغی جماعت سے متعلق آئے عدالتی فیصلوں کےضمن میں کہی ہیں۔

مولانا نے کہا کہ ممبئی وغیرہ کی مؤقر عدالتوں نے جس طرح تبلیغی جماعت کے خلاف سطحی پروپیگنڈوں کی نقاب کشائی کی ہے اور میڈیا کے شرمناک فیصلوں پر اپنے سخت ریمارک دیے ہیں وہ ملک کے خاص وعام کے لیے حوصلہ بخش ہی نہیں کورٹ پر اعتماد بڑھانے والے ہیں۔

مظلوم طبقہ جب انصاف کی مانگ کرتا اور فریاد کی پکار لگاتا ہے تو انصاف کے ان مراکز میں جو منصب دار بیٹھے ہیں ان کی آزمائشیں آخری حد تک بڑھ جاتی ہیں۔ انصاف اور اپنے ضمیر کی آواز دباناخود انھی کے لیے خطرناک اور سبکی کا سبب ہوجاتا ہے اور ظالم کے لیے بھی خطرناک ہےکیونکہ ظلم کے ہاتھ پکڑنے سے اولاً ظالم کو فائدہ پہنچتا ہے، اس سے وہ دنیا اور آخرت میں ظلم کے انجام بد سے بچ جاتا ہے۔ اس لیے ہر حال میں انصاف دلانے کے لیے صحیح فیصلوں کے ساتھ کھڑے رہنے اور تحریک کی بھی ضرورت ہے۔

بابری مسجد کیس کے فیصلے پر اضطراب و بے چینی کا اظہار نا مناسب ہے، کیا سپریم کورٹ کے آنے والے فیصلے کا کھلے دل سے استقبال حکومت اورملک کے ہر شہری کی ذمہ داری نہیں:عبد السلام سلفی

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے امیر مولانا عبد السلام سلفی نے اپنے ایک اخباری بیان میں یہ بات کہی ہے کہ بابری مسجد مقدمہ میں سپریم کورٹ کے آنے والے فیصلےکا کھلے دل سے استقبال کرنا موجودہ حالات میں ہر ہندو مسلمان اور ملک کے شہری کی عہد بند ہونے کے ناطےمذہبی، دستوری، سماجی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ حکومت ہند اور اس کے انتظامی اداروں کا فرض ہے کہ بابری مسجد سے متعلق آنے والے فیصلے کے بعد کسی بھی طرح کے حالات پیدا ہونے پر انصاف اور امن کے تقاضوں کو پورا کریں اور غیر ذمہ دارانہ رویوں کا ثبوت دینے سے بچیں۔

مولانا نے آگے فرمایا کہ یہ افسوسناک بات ہوگی کہ ہندوستان کے شہری مذکورہ مسئلے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کے خلاف بے چینی، ایکشن یا طاقت کا اظہار واستعمال کریں گے۔اگر ایسا ہوگا تو کیا ہمارے ملک کا نظام ایسی صورت حال کو کنٹرول کرنے سے قاصر ہےیا اضطراب وبے چینیاں پھیلانے کے پیچھے کوئی سازش چل رہی ہے۔

امیر جمعیت اہل حدیث نے مزید فرمایا صورت حال کچھ بھی ہو موجودہ حالات میں ہر مسلمان کی دینی ذمے داری ہے کہ وہ متوقع فیصلہ آنے پر شکرگزاری اور غیر متوقع فیصلہ آنے پر صبر کا دامن تھامے رہے اور کسی بھی طرح کے غیر آئینی اقدامات سے باز رہے اور ملت کے اکابرین کی ہدایات اور نصیحتوں کو نظر انداز نہ کرے۔ جب حکومت سے لے کر عام ذمے دار تنظیموں اور معتبر علماء ملت ہندیہ نے یہ صاف کہہ دیا ہے اور ہدایت دے دی گئی ہے کہ بابری مسجد سے متعلق عدالت عالیہ کا فیصلہ ہمیں منظور کرنا ہے تو ہمیں منظور کرنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مسلمان کسی بھی جذباتیت یا اشتعال کا اظہار نہیں کرے گا۔ یہی ذمے داری غیر مسلم اکثریت کی بھی ہے۔ کیا یہ ثابت کیا جائے گا کہ عدالت کا فیصلہ ہمارے نزدیک بے معنی ہے۔ اگر حکومت سے لے کر ہرشہری اپنی ذمے داری ادا کرے گا تو یہ اندیشے بے معنی ہوجائیں گے۔ہمیں امید ہے کہ جمہوریت اور آئین کی پاسداری تمام اداروں، افراد اور جماعتوں کی طرف سے کی جائے گی اور ملکی امن وامان اور نظم ونسق کی بحالی میں تمام لوگ اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گے۔

(جاری کردہ: صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی)

پریس ریلیز (25 جولائی 2019)

چرم قربانی کو ضائع کرنے کی تجویز اور اپیل معقول اور صحیح نہیں

سوشل میڈیا اور ابلاغ کے مختلف ذرائع استعمال کرکے چرم قربانی کے مسئلے کو جذباتی بنایا جارہاہے، مختلف جہات سے یہ بات پھیلائی جارہی ہے کہ مسلم تعلیمی اداروں، ان کی تنظیموں اور غریب طبقہ کو نقصان پہنچانے کے لیے سوچی سمجھی سازش کے تحت جان بوجھ کر قربانی کی کھالوں کی قیمت عید قرباں کے موقع پر گھٹا دی جاتی ہے، لہٰذا قربانی کی کھالوں کو ضائع کردیا جائے، یہ بات بے اصل، غیر دانشمندانہ ہے اور شرعی، سماجی، معاشی، سیاسی ہر لحاظ سے یہ تجویز اور اپیل مناسب نہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ چمڑے کی قیمت کی گراوٹ کا سبب جو بھی ہو مگر کم قیمت پر چرم قربانی کی فروخت کا مسئلہ قربانی کا وقتی مسئلہ نہیں ہے۔ کیونکہ عرصہ سے چمڑے کا کاروبارملکی اور عالمی سطح پر کساد بازاری کاشکار ہے۔ خاص عیدا لاضحیٰ کے ہی موقع پرکھالوں کی قیمت گرا دی جاتی ہے،ایسا نہیں ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ شرعا مال کا ضیاع جائز نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے’’اللہ رب العالمین نے تم کو مال کے ضائع کرنے سے روکا ہے۔‘‘ہمارے دین میں تو پانی کا تھوڑا حصہ تک ضائع کرنے کی ممانعت ہے، قربانی کا چمڑا تو ایک قیمتی مال ہے جس کا ضائع کرناتو اور گناہ ہے،جب کہ نبی ﷺ نے مردہ جانور کی کھال کو دباغت کے بعد استعمال کرنے کا حکم دیا ہے۔

تیسری بات یہ کہ چمڑا ضائع کرنے کے غیر دانشمندانہ اپیل اور عمل کا ایک نقصان یہ ہوگا کہ عوام جو قربانی کے موقع پر ویسے ہی صفائی کا خاطرخواہ خیال نہیں رکھتی کھالیں یہاں وہاں پھینک دے گی جس سے مسلم علاقے مزید آلودہ اور تعفن زدہ ہوجائیں گے ، اندیشہ ہے کہ اس حرکت کو بنیاد بناکر قربانی کے لیے شہری ودیہی انتظامیہ کی طرف سے دی گئی بہت ساری سہولیات اور آزادیاں چھین لی جائیں۔ اس سے بڑی بات یہ ہوگی کہ مسلم مخالف طبقہ مسلمانوں کے ان حالات کو تیزی کے ساتھ پھیلاکر بدنام کرنے کا کام کرے گا۔

اس لیے اس موقع پر مسلمانوںکی ذمہ دار اور اعلی قیادت کو مل بیٹھ کر مسئلے کا کوئی سنجیدہ، مؤثر اور دیر پا حل نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے، اور ملک کی تاجر چرم اور لیدر صنعت میں لگے طبقے کو پوری قوت کے ساتھ کوشش کرکے ملت کو اس بڑے نقصان سے بچانے کے لیے آگے آنا چاہیے۔اور عوام کوقومی سطح پرنفرت پیدا کرنے والی باتوں اور عمل سے بچنا چاہیے۔

( جاری کردہ: دفتر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی )

سری لنکا میں چرچ اور ہوٹلوں پر بہیمانہ حملے مذہب اور انسانیت کی تاریخ میں بدترین قابل مذمت دہشت گردانہ عمل

پڑوسی ملک سری لنکا میں ہونے والے دہشت گرادنہ حملوں کی صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی سخت مذمت کرتی ہے، چرچ اور ہوٹل میں کیے گئے ان سفاکانہ حملوں میں اب تک 290 لوگوں کے مارے جانے کی اطلاع ہے، ان حملوں نے انسانیت کا سر شرم سے جھکا دیا ہے ، اور دنیا کے مستقبل کے متعلق تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ مشکل کی اس گھڑی میں ہماری ہمدردیاں سری لنکن قوم کے ساتھ ہیں، اتنی بڑی تعداد میں بے قصور انسانوں کے قتل سے ہماری آنکھیں نمناک اور دل غمگین ہیں۔ یہ حملے ممالک کے تعلقات خراب کرنے اور مذہب کو بدنام کرنے کی کسی بہت بڑی خطرناک سازش کا حصہ لگتے ہیں ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ تحقیق و تفتیش کے بعد مجرمین کو عبرتناک انجام تک پہنچایا جائے گا اور مظلوموں کو جلد از جلد انصاف مل سکے گا۔

ہم میڈیا کے کچھ اداروں کے اس غیر ذمہ دارانہ رویے کو سخت تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو بغیر تحقیق وتفتیش کے ان حملوں کی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال رہے ہیں ، میڈیا کے یہ ادارے سماج میں ایک مذہب کے خلاف دوسرے اہل مذاہب کے ذہن میں نفرت کا زہر گھولنے اور فساد پھیلانے کا انسانیت سوز کام کر رہے ہیں۔

ہم اپنے اس موقف کا اعادہ کرتے ہیں کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، نہ ہی کسی مذہب میں اس کا تصور ہے کہ کسی عبادت گاہ پر حملہ کرکے عبادت کرنے والوں کو نقصان پہنچایا جائے ۔ دہشت گرد ساری انسانیت کے مجرم ہیں اور ان کے خلاف بغیر ملک و مذہب کی تفریق کے کھڑا ہونا ضروری ہے۔

(منجانب: دفتر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی)

نیوزی لینڈ میں مصلیوں پر حملہ کھلی دہشت گردی ہے

مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے سیاستدان اور ابلاغی ادارے بھی اس حملے کے ذمہ دار ہیں۔

کرائسٹ چرچ (نیوزی لینڈ) میں نمازیوں پر دہشت گردانہ حملہ انتہائی افسوسناک، تکلیف دہ اور قابل مذمت ہے۔ یہ سفاکانہ دہشت گردی کا ایسا مذموم واقعہ ہے جو انسانیت کے چہرے پر ایک بدنما داغ بن کر ثبت ہوگیا ہے۔

نیوزی لینڈ کا یہ دہشت گردانہ حملہ عالمی سطح پر پھیلائے گئے اسلاموفوبیا کا ایک مظہر ہے، اس حادثے کے ذمہ دار وہ سیاستدان اور ذرائع ابلاغ بھی ہیں جو دنیا میں ہونے والے ہر دہشت گردانہ حملے کا جرم مسلمانوں کے کندھوں پر ڈال کر اسلام کو دہشت گردی سکھانے والا دین قرار دیتے رہے ہیں، ایسے پروپیگنڈوں سے کم سمجھ اور جذباتی لوگوں میں اسلام اور مسلمانوں کے تئیں نفرت بڑھتی ہے ،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت اسلام اور مسلمان ہی پوری دنیا میں دہشت گردی کے سب سے زیادہ شکار ہیں ۔ جس کے اسباب میں سے ایک سبب عالمی سطح پر ان کے خلاف پھیلائی گئی نفرت ہے ۔

نیوزی لینڈ کا یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ دہشت گردی رنگ، نسل اور مذہب سے بالا تر ہو کر کی جاتی ہے، دہشت گرد کا کوئی وطن اور مذہب نہیں ہوتا۔

نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کی کل آبادی ایک فیصد سے کچھ زائد ہے، نیوزی لینڈ کی مسلم اقلیت انتہائی امن پسند اور صلح جو ہے، ان پر کبھی ملک کے خلاف کسی بھی طرح کی سرگرمی میں ملوث ہونے کا الزام تک نہیں لگا ہے۔ لہٰذا ایسے بیانات جن میں اس دہشت گردانہ کاروائی کا سبب نیوزی لینڈ کی طرف مسلمانوں کی ہجرت قرار دیا گیا ہے انتہائی مذموم جھوٹ ہے۔

یہ حملہ دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والی مسلم اقلیتوں کے لیے بھی خوف اور تشویش کا باعث ہے، ان ممالک کے حکمرانوں کو مسلمانوں کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا چاہیے۔ مسلم حکمرانوں کو بھی ان ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

ایسے موقع پر مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ایمان اور اعمال کا محاسبہ کریں، اللہ کا تقویٰ اختیار کریں، دین حق کی طرف رجوع کریں، دعوت الی اللہ کے کام میں اور تیزی لائیں، توبہ اور استغفار کی کثرت کریں، اللہ رب العزت پر کامل توکل رکھیں، اللہ رب العزت ہی عزت اور ذلت عطا کرنے والا ہے اور اس نے سچے ایمان والوں سے نصرت اور بلندی کا وعدہ کیا ہے۔اللہ رب العالمین اس حملے میں مارے جانے والے مسلمانوں کی مغفرت فرمائے اور ان کو شہادت کے مرتبہ سے سرفراز فرمائے، ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے اور زخمیوں کو عاجل و کامل شفا عطا فرمائے اور اللہ کی راہ میں بہنے والے خون پر ان کو بہترین اجر عطا فرمائے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون، اللھم آجرنا في مصيبتنا، وأخلف لنا خيرًا منھا۔

(جاری کردہ: دفتر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی)

ڈاکٹر ذاکر نائک کے ادارے پر لگائی گئی پابندی ملک کے روادار سماج اور سیکولر دستور کی معکوس نمائندگی اور انصاف کے تقاضوں کے ساتھ کھلواڑ ہے۔

ڈاکٹر ذاکر نائک کی شخصیت اور ملک کی دیگر نمائندہ اسلامی شخصیات عالمی سطح پر ہندستان میں اظہارِ رائے کی آزادی ، رواداری کی علامت ہیں ۔ ان پر یا ان کے اداروں پر پابندی سے عالمی سطح پر ملک کی سیکولر ، روادار شبیہ داغ دارہوگی ۔

(صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی)

وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں ہونے والے مرکزی کابینہ کے اجلاس میں ملک کے معروف اسلامی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ادارے ’’ اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن‘‘ پر پانچ برس کے لیے پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی یہ سمجھتی ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک کے ادارے پر لگائی گئی پابندی ملک کے روادار سماج اور سیکولر دستور کی معکوس نمائندگی اور انصاف کے تقاضوں کے ساتھ کھلواڑ ہے؛ اس لیے حکومت سے اس پابندی کو فوراً ختم کرنے کا مطالبہ کرتی ہے ۔

ڈاکٹر ذاکر نائک مشہور اسلامی مبلغ ہیں ۔ان کے خطابات ملک وبیرون ملک سنے جاتے ہیں ۔ہماری معلومات کے مطابق انہوں نے ہمیشہ امن وآشتی ہی کی بات کی ہے اور دہشت گردی کی ہر شکل کی وہ ہمیشہ مذمّت کرتے رہے ہیں ۔ اور ملک کی عوام نے عام طور پر ان کی زبان سے ہمدردی ، تعاون اور باہمی احترام ہی کی باتیں سنی ہیں ۔ ایک طرف سلجھے لہجہ میں بات کرنے والے شخص پر پابندی لگائی جارہی ہے تو دوسری طرف کھلے عام مختلف فرقوں کے خلاف بیان دے کر منافرت پھیلانے والوں کو ملک میں کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے ۔ یہ صورت حال ملک کی اقلیات کے لیے فکرمندی اور تشویش کا باعث ہے ۔ کیونکہ ایک شخص کے ساتھ نا انصافی کے بعد خدشہ ہے کہ دوسرے کو بھی نشانہ بنایا جائے اور یہ سلسلہ دراز ہوسکتاہے جس کے آثار نظر آنے لگے ہیں ۔

ملک میں اب تک ڈاکٹر ذاکر نائک اور دیگر نمائندہ شخصیات کو دینی امور میں بولنے کے لیے ملی ہوئی آزادی کی وجہ سے یہ حضرات عالمی طور پر ہندستان میں اظہارِ رائے کی آزادی اور رواداری کی علامت ہیں ۔ ان پر یا ان کے اداروں پر پابندی سے عالمی سطح پر ملک کی سیکولر شبیہ داغ دار ہوگی ۔

حکومتی ادارے اب تک ڈاکٹر ذاکر نائک اور ان کے ادارے کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کرسکے ہیں ۔ بغیر کسی پختہ ثبوت کے ڈاکٹر ذاکر نائک کے ادارہ کے خلاف حکومت کی یہ کاروائی عدل وانصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے ۔

نوٹ بندی کے بعد ملک میں جس افراتفری کا ماحول ہے ایسے موقع پر ملک کے حالات کنٹرول کرنے کی بجائے مرکزی کابینہ کی جانب سے پابندی کے فیصلہ کا مقصد میڈیا اور عوام کا ذہن ملک می پھیلی بے چینی اور افراتفری سے پھیر دینے کی ایک کوشش کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے ۔

ہم اس موقع پر ڈاکٹر ذاکر نائک کے دفاع میں مختلف مسالک کے نمائندوں اور علماء کے کھڑے ہونے کی تحسین کرتے ہیں اور ملک کی دیگر جماعتوں بالخصوص غیر مسلم سیکولر تنظیموں اور میڈیا سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ ملک کی سیکولر امیج ، رواداری اور اظہار رائے کی آزادی کے تحفّظ کے لیے آگے آئیں۔

ان خیالات کا اظہار صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے امیر مولانا عبدالسلام سلفی نے صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کیا ہے۔

ہندستانی فضائیہ کی فوجی کاروائی قابل فخر ، امن سب کی ضرورت ہے، جنگ کسی کے مفاد میں نہیں ہے

پلوامہ کے قابل مذمت دہشت گردانہ اور بربری حملے کے بارہ دن بعد ہندوستانی فضائیہ کے قابل فخر جوانوں نے بالا کورٹ کے مبینہ دہشت گرد کیمپ پرحملہ کرکے دہشت گردوں کو زبردست سبق سکھایا ہے، پورے ملک میں بجا طورپر اس کی ستائش ہورہی ہے اور ملک کی جنتا متحد اور ایک آواز ہوکر اسے سراہ رہی ہے۔ برسر اقتدار پارٹی، اپوزیشن اور ملک کے سبھی دھرموں اور سبھی طبقات کے لوگ ملک دشمن طاقتوں کے خلاف کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملائے کھڑے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو جذبات کی بجائے عقل اور انصاف سے کام لیتے ہوئے ان طاقتوں کے خلاف سنجیدہ کارروائی کرنی چاہیے جو اس کے لئے مستقل درد سر اور جگ ہنسائی کا باعث ہیں نیز پڑوسی ممالک سے اس کے تعلقات میں ہمیشہ تلخی گھولتے رہتےہیں۔ اور اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہندوستان جیسے مضبوط اور اچھے پڑوسی ملک سے جنگ ہرگز اس کے مفاد میں نہیںہوسکتی ہے اس لئے کسی غیر دانشمندانہ کارروائی کے متعلق سوچنے یا کسی نامناسب حرکت پر کسی کی پیٹھ ٹھونکنے کی بجائے اسے امن کی راہیں تلاش کرنی چاہیے۔

امن سب کی ضرورت ہے، جنگ کسی کے مفاد میںنہیں ہے اس لئے دونوں ملکوں کے سنجیدہ طبقے اور لیڈروں کو ایسی کوشش ضرور کرنی چاہیے جس سے جنگ کی بجائے امن، بقائے باہم کے اصولوں کی پاسداری اور ایک دوسرے کے ساتھ خوشگوار تعلقات بنانے کا ماحول پیدا ہو، اس سلسلے میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے، مگر افسوس کہ میڈیا کے ذرائع میں ایسے افراد کی کثرت ہے جو اپنی ذمہ داریوں کو محسوس نہیں کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے امیر مولانا عبدالسلام صاحب سلفی اور دیگر ذمہ داران نے کہا کہ ہم ملک کی بقا و تحفظ اور اس کی شان بڑھانے کے ہرکام میں حکومت کے ساتھ ہیں۔

ہندوستانی وزیر خارجہ محترمہ ششما سوراج صاحبہ اور پاکستانی وزیر اعظم عمران خان صاحب دونوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں اور بات چیت کے ذریعہ اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے۔ ہم اس فکر کا دلی خیر مقدم کرتے ہیں اور اپیل کرتے ہیں کہ امن کے لئے ملک کی سبھی اہم شخصیتوں کو آگے آنا چاہیے۔

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے امیر نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ افواہوں پر دھیان نہ دیں اور جب تک سرکاری طورپر کوئی خبر شائع نہ کی جائے اسے آگے نہ بڑھائیں نیز غیر ضروری اور غیر ذمہ دارانہ بیانات سے گریز کریں اور ملکی امن ویکجہتی کا خصوصی خیال رکھیں۔

منجانب : دفتر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی

اتحاد امت وقت کی اہم ترین ضرورت

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کی پریس ریلیز

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے امیر مولانا عبدالسلام صاحب سلفی نے ۷؍ جنوری ۲۰۱۸؁ء بروز اتوار بعد نماز عصر تا دس بجے شب جھولا میدان بائیکلہ میںمنعقد ہونے والی پیغام حق کانفرنس کی غرض وغایت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ملت اسلامیہ ہند اس وقت بڑے نازک حالات سے گزر رہی ہے اور اس کا تشخص مختلف نشانوں پر ہے، اس کے حوصلے پست کرنے اور اسے احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی منصوبہ بند کوششیں ہورہی ہیں، بھیڑ کے ذریعہ منظم حملے، خواتین کے تحفظ کے نام پر مسلم پرسنل لاء کو بے اثر کرنے کے لئے قانون سازی، مدارس اسلامیہ کی آزادی پرقدغن، اور دیگر بہت سارے منصوبے اس سلسلے میں بڑے منظم انداز میں کام کررہے ہیں، فسطائی قوتیں ایک آواز اور متحد ہوتی جارہی ہیں جبکہ مسلمانوں کے پاس حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بہت کمزور نظر آتی ہے، اپنے دفاع کے لئے بھی ان کے پاس کوئی جامع منصوبہ بندی دور دور تک نظر نہیں آتی ہے، ان کے درمیان مشترک مفاد کے لئے بھی کوئی متحدہ پلیٹ فارم نہیں ہے نہ گروہ بندیوں سے بلند کوئی قیادت سامنے آتی ہے، امت مختلف قسم کے رسم ورواج اور زیاں کاریوں کے رنگا رنگ سلسلوں سے جڑی ہوئی ہے۔ بزرگ بے پروا اور نوجوان غیر تربیت یافتہ ہیں، اجتماعی سوچ اور فکر مندی کا نشان ملت میں بہت کم کم ہی ملتاہے۔ اس لئے یہ کانفرنس وقت کے تقاضوں کے مطابق اس کے عزت اور قوت کے اصل سرچشموں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اسے حالات سے عہدہ برآ ہونے کی رہنمائی کرے گی، قرآن وسنت اور آثار سلف کے ماہر علماء وخطباء ان شاء اللہ اسے درست راہ عمل دکھائیں گے اور اتحاد امت کی صحیح بنیادیں فراہم کریں گے جو وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

مولانا عبدالسلام صاحب سلفی نے فرمایا کہ یہ کانفرنس صوبائی جمعیت اہل حدیث کے زیر اہتمام جامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ کے تعاون سے منعقد ہورہی ہے جس میں سعودی عرب، شارجہ، برطانیہ اور ملک کے مختلف شہروں میں مقیم نامور ہندوستانی اہل علم خطاب فرمائیں گے۔ اور کانفرنس میں علامہ داود راز دہلوی حیات وخدمات سے متعلق مقالات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب کا اجرا ہوگا اور علامہ کی حیات وخدمات پر جامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ میں دس بجے صبح تا ۱؍ بجے دوپہر ایک سیمینار بھی ہوگا۔

مولانا نے بلا تفریق مسلک ان پروگراموں میں شرکت کی عامۃ المسلمین سے اپیل کی ہے۔

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے زیر اہتمام عظیم الشان کانفرنس بعنوان ''آزادی وطن میں اتحادویکجہتی کا کردار''

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے امیر مولانا عبدالسلام صاحب سلفی نے کانفرنس سے متعلق اپنے ایک وضاحتی بیان میں فرمایا

اسلام دین رحمت ہے۔ اس دین کی آخری شکل کی تبلیغ ودعوت اور تشریح وتفہیم کے لیے رب رحمٰن ورحیم نے جس ذات گرامی کا انتخاب کیا اسے رحمۃ للعالمین کے لقب سے سرفراز کرکے مبعوث فرمایا۔ اس لیے رحمت ہی اس دین کا سب سے بڑا امتیاز اور سب سے بڑی شناخت ہے۔دنیا کاکوئی بھی منہج جو عمومی اعتبار سے اللہ کی رحمت کا مظہر نہ ہو وہ منہج دین اسلام کا صحیح ترجمان نہیں ہوسکتا۔ اسلام کی یہ رحمت دنیا کے ہر طبقہ کے لیے ہے۔ فراخی اور وسعت اس رحمت کا لازمی تقاضہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر مذاہب اور نظریات کے لیے جتنا ظرف اور وسعت اس دین میں موجود ہے دنیا کا کوئی نظریہ یا دین اپنے مخالفین کے لیے اتنی فراخی نہیں رکھتا۔

قرآن وسنّت کے نصوص، صحابہ اور اسلاف امّت کے اقوال وآثار محدثین اور فقہاء کی کتابیں ان تصریحات سے بھری پڑی ہیں۔ رواداری کے یہ احکام محض کتابی باتیں نہیں۔ مسلمانوں کا دور حکومت رواداری کے جن عظیم الشان مظاہر سے روشن ہے ان کی نظیر تاریخ کی کسی حکومت تو کیا موجودہ دور کی سیکولر ریاستیں بھی پیش نہیں کرسکتی ہیں جو مسلمانوں کے ''مخصوص لباس '' اور'' مخصوص خوراک ''تک کو برداشت کرنے کی روادار نہیں۔

دیگر ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی مسلم حکمرانوں کی شاندار تاریخ رہی ہے۔مسلمانوں نے اپنے دورِ حکومت میں اس ملک میں رواداری کی اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں۔ صرف مسلم حکمرانوں نے ہی نہیں اس ملک کے بیش تر غیر مسلم حکمرانوں نے بھی دیگر مذاہب کے ساتھ ہمیشہ رواداری ہی کا رویہ رکھا ہے۔ ایک طرف بڑی تعداد میں ایسے غیر مسلموں کے نام تاریخ میں ثبت ہیں جن کو مسلم حکمرانوں کے دور میں اہم عہدے اور بڑی ذمہ داریاں تفویض کی گئی تھیں تو دوسری جانب غیر مسلم حکمرانوں نے بھی مسلمانوں کواپنے کار حکومت میں شامل رکھا ہے۔ دنیا کیسارے غیر جانبدار مؤرخین ہندوستان کی تاریخ کے اس روشن باب کے گواہ ہیں۔

باہمی اخوت اور رواداری اس ملک کی سب سے بڑی شناخت ہے۔ یہ شناخت اس ملک کے ساتھ ایسی وابستہ ہے کہ بین المذاہب رواداری اور باہمی اخوت کے اس رویّہ کو '' ہندوستانیت '' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ رنگ اور نسل، تہذیب اور زبان، مذہب اور نظریات کے اختلافات کے باجود یہ '' ہندوستانیت ''ہی ہے جو ملک کے تمام باشندوں کو ایک اسٹیج پر جمع کرتی ہے۔ ''ہندوستانیت '' ہی وہ رویہ ہے جس کو ہم '' کثرت میں وحدت'' سے تعبیرکرتے ہیں۔ یہ رنگارنگی اور بوقلمونی اس ملک کا اصل حسن ہے۔ یہی ''ہندوستانیت'' ہے جس نے اس ملک کو انگریزی استبداد سے نجات دلائی جس میں مسلمانوں کا کردار حد درجہ روشن اور نمایاں ہے اور اس چمن رنگا رنگ کی آزادی، حفاظت اور بقاء میں ان کے لہو کا سیلِ رواں بہا ہے اور آتش وآہن کی اس خونریز داستان میں ان کی تاریخ کا صفحہ صفحہ روشن ہے۔ یہ ''ہندوستانیت'' اس ملک کی ترقی کا ضامن اور اس کی بقاء کالازمی تقاضہ ہے۔

ہندوستان کی '' ہندوستانیت'' کی حفاظت کرنا اس ملک سے محبت کرنیوالے ہر فرد کی اولین ذمہ داری ہے۔ اسی اہم مقصد کے پیش نظرصوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی''آزادی وطن میں اتحادویکجہتی کا کردار'' کے عنوان پر ایک کانفرنس کا انعقاد کررہی ہے۔کانفرنس کے لیے اتوار، ۲۰ /اگست۲۰۱۷؁ء کی تاریخ طے کی گئی ہے۔ کانفرنس ان شاء اللہ ڈائمنڈ ہال، کھڑی مشین روڈ، کوسہ ممبرا ، تھانہ میں شام ۵ بجے سے رات ۱۰ بجے تک جاری رہے گی ۔ کانفرنس میں ان شاء اللہ مختلف مسالک کے علماء و دانشوران کیساتھ دیگر اہم سماجی مشاہیر و ذمہ داران اظہار ِخیال فرمائیں گے۔ کانفرنس کی صدارت صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے امیر شیخ عبدالسلام صاحب سلفی فرمائیں گے۔ کنوینر کے فرائض مولانا عبدالجلیل مکی انجام دیں گے اور نظامت کی ذمہ داری مولانا حمید اللہ صاحب سلفی نبھائیں گے۔ ملک کے تمام باشندوں سے مذہب و مسلک کی تفریق کے بغیر اس کانفرنس میں شرکت کی درخواست ہے۔

اُمید کرتے ہیں کہ آپ ہماری دعوت کو قبول فرماکر فکری بیداری اور مثبت ذہن سازی کی اس مہم میں ہمارا تعاون فرمائیں گے۔

میڈیا سیل صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کی جانب سے حج ٹریننگ کیمپ اور ماہانہ اجلاس عام کا انعقاد

حجاج کی ذہنی اور عملی تربیت کے لیے حج ٹریننگ کیمپ کا انعقاد صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کی روایت رہی ہے۔ اس روایت کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اس سال 6 / اگست بروز اتوار جامعۃ الرشاد کرلا ویسٹ میں حج تربیتی کیمپ کا انعقاد کیا گیا۔ اجلاس کی کاروائی عصر کی نماز کے بعد شروع ہوئی۔ تلاوت کلام اللہ کے بعد شیخ انصار زبیر صاحب محمدی حفظہ اللہ نے ''حج کا مسنون طریقہ '' کے موضوع پر خطاب فرمایا۔ شیخ نے پہلے حج کے ارکان، واجبات اور مسنون اعمال کی وضاحت فرمائی۔ اس کے بعد حج کا عملی طریقہ تفصیل سے بیان کیا۔ دوران خطاب شیخ نے حاجیوںسے ہونے والی عمومی غلطیوں کی بھی نشاندہی فرمائی اور اپنے طویل تجربہ کی روشنی میں حجاج کرام کو اپنے مفید مشوروں سے بھی نوازا۔ خطاب کے بعد سوال جواب کے سیشن میں حجاج کرام کے سوالوں کا تشفی بخش جواب عنایت فرمایا۔

شیخ انصار زبیر محمدی کے بعد دوسرا خطاب صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے داعی شیخ عنایت اللہ صاحب سنابلی کا ''مقاصد حج'' کے موضوع پر ہوا۔ شیخ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ حج اللہ کی طرف سے مشروع کی گئی عبادت ہے۔ حج توحید کا عظیم پیغام ہے۔ اس عبادت کے ذریعہ اخلاص اور تقویٰ پر بندہ کی تربیت کا انتظام کیا گیاہے۔ حج مسلمانوں کے اتحاد اور طاقت کا مظر بھی ہے اور اس بات کی علامت بھی کہ قوم ونسل، رنگ وزبان کی متعصبانہ تفریق کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ اللہ کے یہاں سارے مسلمان برابر ہیں۔ ان میں اگر کوئی امتیاز ہے تو وہ تقویٰ کا ہے۔

مغرب کی نماز کے بعد اجتماع عام کی شروعات ہوئی۔ پہلا خطاب شیخ کفایت اللہ صاحب سنابلی نے ''رواداری کا اسلامی تصور'' کے موضوع پر فرمایا۔ شیخ نے اپنے خطاب میں اسلام غیر مسلموں کے حقوق پر روشنی ڈالتے ہوئے مذہبی روادای کے حدود کی وضاحت فرمائی۔ شیخ نے رواداری کی جائز اور ناجائز صورتوں پر روشنی ڈالی۔ شیخ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلام اپنے مخالفین کے ساتھ بھی انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے۔دین کے معاملہ میں اللہ رب العالمین نے انسان کو دنیا میں اختیار دیا ہے کہ وہ جس راستے کی پیروی کرنا چاہے آزاد ہے۔ اس پر کسی طرح کی کوئی زبردستی نہیں۔ اللہ کی دی ہوئی اس آزادی کو چھیننے کا حق کسی مسلمان کو بھی نہیں۔ دعوت میں داعی کا اچھے اخلاق اور انصاف کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ دوسرے مذاہب اور ان کے ماننے والوں کی توہین اور استہزاء سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اسلام میں ظلم حرام ہے۔ حتی کہ کافر بھی اگر مظلوم ہوتا تو اللہ اس کی بد دعا بھی رد نہیں کرتا۔

دوسری نشست میں دوسرا خطاب شیخ محمد مقیم فیضی صاحب حفظہ اللہ کا ہوا۔ شیخ نے قرآن وسنّت اور مختلف واقعات کی روشنی میں موجودہ حالات میں ایمان اور استقامت کی اہمیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ شیخ نے قرآن کی آیات کی روشنی میں یہ بات ثابت کی کہ مسلمانوں کا عروج اور غلبہ ایمان ہی کے ساتھ مشروط ہے۔ صحابہ کرام کے ایمان کا اعلیٰ درجہ اور اللہ رب العالمین پر توکل تھا جس کی وجہ سے اللہ نے ان کو بہت مختصر وقت میں زمین کی بڑی بڑی طاقتوں پرفتح عطا فرمائی۔ اللہ کے وعدہ پر ان کا بھروسہ اتنا مضبوط تھا کہ اس کے سامنے وہ دنیا کی ہر طاقت کے سامنے بے خوف ہوگئے تھے۔ اس وقت عالمی سطح پر ہماری پسپائی اور زوال در حقیقت ہماری ایمانی کمزوری اور اللہ کے دین سے دوری کا نتیجہ ہے۔ غزوہ احد کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول کی نافرمانی ہمیشہ شکست کا سبب بنتی ہے۔ شیخ نے اپنے خطاب میں مختلف دینی اور فکری انحرافات کی نشاندہی کی۔ شیخ نے فرمایا کہ صرف چار سو سال پہلے مسلمان دنیا کے بیشتر حصوں پر قابض تھے۔ اب یہ زمینیں مسلمانوں کے اقتدار سے نکل چکی ہیں۔ یہ اللہ کی سنت ہے کہ اللہ ان ایام کو لوگوںمیں باری باری بدلتے رہتا ہے اور جب ایمان والے اپنی اہلیت گنوا بیٹھتے ہیں تو حکومتیں دوسروں کو دے دی جاتی ہیں، عقائد فاسدہ اور اعمال بد کا نتیجہ عقاب کی شکل میں سامنے آتاہے۔

اجلاس کے آخر میں صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے امیر شیخ عبدالسلام صاحب سلفی نے صدارتی خطاب فرمایا: شیخ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ حج اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ جس کی اہمیت ویسی ہی ہے جیسے گھر کے لیے ستونوں کی۔ جیسے گھر کی حفاظت کے لیے اس کے ستونوں کی حفاظت ضروری ہے ویسے ہی اپنے دین کی حفاظت کیلیے اس کے ارکان کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے۔ استطاعت رکھنے والے حضرات کو حج کی ترغیب دیتے ہوئے حضرت عمر کا یہ قول بیان کیا کہ جو لوگ حج کی استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتے ان پر جزیہ کیوں نہ لگا دیا جائے۔

شیخ کی دعاؤں اور شکریہ کے کلمات کے ساتھ اجلاس کا اختتام ہوا۔ نظامت کے فرائض جامعۃ الرشاد کے امام شیخ عبدالرحمٰن سلفی نے بحسن وخوبی انجام دیے۔

تحفظِ شریعت صرف نعروں سے نہیں - عقیدہ وعمل کے تحفظ سے حاصل ہوگا

عورتوں سے ہمدردی کے عنوان سے مسلم پرسنل لاء نشانہ - عبدالسلام سلفی

اسلام خالص کی رہنمائی اور موجودہ حالات میں اس پر ایمان و عمل کی اہمیت کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف جاری پروپیگنڈوں اور سازشوں کو سمجھنے سمجھانے کے لئے جھولامیدان مدنپورہ کے وسیع گراؤنڈ پر ایک عظیم الشان کانفرنس بعنوان ’’تحفظِ شریعت‘‘ یکم جنوری بروز اتوار ۲۰۱۷ء؁ کو منعقد ہورہی ہے۔ جو صبح ۱۰؍ بجے سے رات دس بجے تک جاری رہے گی ان شاء اللہ۔

تحفظِ شریعت نعروں سے نہیں عقیدہ صحیحہ اور مسنون طریقوںپر عمل سے حاصل ہوگا شریعت کو داخلی خارجی ہرطرح کے غلط اثرات وتاثرات سے نکالنا ملی اور دینی قیادت کی اصل ذمے داری ہے ان خیالات کا اظہار صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے امیر مولانا عبدالسلام سلفی نے اپنی ایک پریس ریلیز میں کیا ہے۔

مصادر شریعت، تحفظ شریعت، مسلم پرسنل لاء۔ اس کا تحفظ کیوں اور کیسے؟ موجودہ حالات کے تناظر میں ذمے دارانہ اصولی رہنمائی اور ملک میں مسلم پرسنل لاء میں مداخلت جیسی صورت حال سے دوچار ملت اسلامیہ ہندیہ کے لئے کیا کرنا چاہیے کیا نہیں کرنا چاہیے، کتاب وسنت اور سلف صالحین کے فہم اور واقعات کی روشنی میں، عالمی سطح کے معتبر اکسپرٹ علماء کرام اور قائدین ملت سے استفادہ کے لئے یہ کانفرنس اہم ذریعہ ثابت ہوگی ان شاء اللہ ۔جس کا انعقاد صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی اور جامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ کے اشتراک وتعاون سے ہورہا ہے۔

صدر کانفرنس مولانا عبدالسلام سلفی کے ساتھ صدر مجلس استقبالیہ وکنوینر کانفرنس مولانا محمد مقیم صاحب فیضی ومولانا عبدالجلیل انصاری صاحب مکی نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ بدعتوں کے تحفظ اور وکالت اور اسلام اور پیغمبر اسلام کے ساتھ جھوٹی نسبت، گروہ بندی ،دیوانگی اور عشق کے نعروں سے اسلام کو اور مسلمانوں کا بھلا نہیں ہوسکتا ہے۔ اور نہ اس میں کروڑوں برادران وطن دیش باسیوں کے لئے کوئی پیغام اور اپیل ہوسکتی ہے۔ اس لئے پوری قیادت اور جمہور عوام کو سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ اپنی گفتگو میں ذمے داران کانفرنس نے یہ بات بھی صاف صاف کہی ہے کہ ملک کے موجودہ حالات میں اسلام سے ملنے والی رہنمائی سے استفادہ میں ہی نجات ہے یہ حقیقت دنیا کے انصاف پسند آج بھی قبول کرتے ہیں لیکن افسوس صد افسوس اسلام سے آزاد سماج کے لئے اس کے خلاف پروپیگنڈہ یہ باضابطہ پروگرام کے تحت چل رہا ہے۔یہ انسانیت اور سماج کے لئے خطرناک ہے۔

عام خاص تمام لوگوں سے بلا اختلاف مذہب وملت اس کانفرنس میں بھرپور استفادہ کے لئے جوق درجوق تشریف لانے کی اپیل کی گئی ہے۔

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے زیر اہتمام ایک عظیم الشان کانفرنس بعنوان’’ آزادیٔ وطن میں اتحاد ویکجہتی کا کردار‘‘ میں علماء کرام کا اظہار خیال

؍اگست ۲۰۱۷؁ء بروز اتوار شام ۵ ؍بجے تا ۱۰؍بجے شب ،ڈائمنڈ ہال کھڑی مشین روڈ، کوسہ ممبرا، تھانہ اللہ تعالیٰ نے اس سجی سجائی کائنات میں بنی آدم کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا ہے، اور ان کے لئے زیست کے سارے سامان مہیا کئے ہیں۔ اس نے انسانوں کی درست رہنمائی کے لئے انبیاء ورسل مبعوث کئے اور کتابیں نازل فرمائیں تاکہ انسان اپنے خالق کی بندگی کے تقاضوں کے ساتھ باہمی امن وعافیت کے اصولوں اور بنیادوں کو اچھی طرح سمجھ سکے۔ چونکہ سب سے آخری رسول حضرت محمد ﷺ اور ان کو عطا کی جانے والی کتاب قرآن مجید آخری آسمانی کتاب ہے اس لئے انسانی رشتوں میں پائیداری اور بقائے باہم کے اصولوں اور دنیا میں امن وامان کے قیام کی بنیادوں پر سب سے زیادہ روشنی بھی اسی کتاب میں ڈالی گئی ہے، اور نبی اکرم ﷺ اور ان کے خلفاءکی حکومتوں نے عدل وانصاف، انسانیت نوازی اور عام پبلک کے لئے امن وعافیت سے بہرہ اندوز ہونے کے اعلیٰ نمونے پیش کئے ہیں، اس لئے آج جبکہ دنیا میں، عدم برداشت، عدم تحمل، تشدد اور جارحیت اور باہمی تعلقات میں انسانی اصولوں اور قدروں کی پامالی کے واقعات بڑھتے جارہے ہیں دنیا کو ان نمونوں سے رہنمائی حاصل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

ان خیالات کا اظہار آج ۲۰؍اگست ۲۰۱۷ء؁ کی ڈائمنڈ ہال ممبرا میں منعقد ایک کانفرنس میں صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے امیر مولانا عبدالسلام سلفی نے کیا۔ جو جمعیت ہی کے زہر اہتمام منعقد ہوئی تھی۔ مولانا نے مزید فرمایا کہ ہمارے ملک ہندوستان میں مسلم حکمرانوں نے سیکڑوں برس حکومت کی اور انھوں نے وسعت قلبی، اور مذہبی رواداری کے گرانقدر نمونے پیش کئے جس کا اعتراف تمام انصاف پسندوں کو ہے، پھر جب ملک انگریزوں کی غلامی اور ظلم وجبر کی مصیبتوں سے دوچار ہوا تو مسلمانوں نے اس دیش کی آزادی میں زبردست قربانی دی۔ اس میں اہل حدیث علماء اور عوام کی خدمات بھی زبردست اور نمایاں تھیں ان کے لاکھوں علماء وعوام نے انگریز کی لاٹھیاں کھائیں، جیل کی سزائیں بھگتیں، پھانسیوں کی سزاؤں سے دوچار ہوئے، ان کی جائدادیں ضبط ہوئیں اور ملک کے سبھی طبقات اور مذاہب ومسالک کے لوگوں کے ساتھ ملکر انھوں نے زبردست کردار اداکیا ۔ بالآخر یہ ملک آزاد ہوگیا۔ اب اسے ترقی کے لئے باہمی اتحاد کی ضرورت ہے۔ دیگر علماء میں مولانا ظفر الحسن مدنی، ڈاکٹر عبدالقیوم مدنی، مولانا محمد مقیم فیضی، مولانا ابوزید ضمیر،مولانا عبدالحکیم مدنی، صحافتی دنیا کی اہم شخصیتوں میں جناب شاہد لطیف صاحب، جناب فاروق انصاری صاحب، جناب سعید حمید صاحب، جناب سید حسین شمسی صاحب وغیرہ نے شرکت کی اور گرانقدر خیالات کا اظہار فرمایا۔

اس کانفرنس میں علمائے کرام نے اس بات پر بھی اظہار افسوس کیا کہ آج مجاہدین آزادی کی فہرست میں مولانا اسماعیل شہید، مولانا ولایت علی صادقپوری، مولانا عنایت علی صادقپوری، امیر عبداللہ صادقپوری، مولانا جعفر تھانیسری، شیخ الکل میاں نذیر حسین محدث دہلوی، مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، نواب مبارز الدولہ، مولانا محمد علی قصوری اور دیگر بہت سے بزرگوں کا نام کہیں نظر نہیں آتا نہ کوئی انہیں مجاہد آزادی کے طورپر یاد کرتاہے حالانکہ تنہا علمائے صادقپور عظیم آباد (پٹنہ) کی قربانیاں اتنی عظیم ہیں کہ جن کے متعلق مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ "اگر پورے ملک کی خدمات ایک پلرے میں رکھ دیں اور آزادی وطن کے لئے صادقپوری خاندان کی قربانیاں دوسرے پلرے میں تو صادقپوری خاندان کا پلرا بھاری ہوجائے گا۔"

ذہن نشین رہے کہ ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابواکلام آزاد بھی اسی جماعت کے ایک فرد تھے اور کچھ اہم مسائل میں اختلاف کے باوجود بانی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سر سیّد احمد خان بھی اسی جماعت کی طرف انتساب رکھتے تھے.

کانفرنس میں ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی، عدم رواداری مخصوص ذہنیت کی بھیڑ کے ذریعہ مسلمانوں پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات، اور مسلمانوں کو ذہنی اور جسمانی طورپر اذیت پہنچانے کی منصوبہ بند کاوشوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور ملک کے سچے بہی خواہوں اور سیکولر اقدار کے حامل دانشمندوں سے اپیل کی گئی کہ وہ ملک کی سالمیت اور ترقی کے لئے اور خوف ودہشت کے ماحول کو ختم کرانے کے لئے پھر سے متحد اور ایک آواز ہوکر آگے بڑھیں اور فرقہ پرستی کی بڑھتی ہوئی لعنت سے ملک کو چھٹکارا دلائیں۔ اس سلسلے میں ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی توجہ بھی اس طرف مبذول کرائی گئی کہ وہ عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں اپنا صحیح کردار ادا کرے اور فرقہ پرستوں کو لگام دینے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ اور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی پالیسی اپنائے۔ کیونکہ نفرت کا ثمر کبھی شیریں نہیں ہوتاہے۔ سماجی شخصیات میں ڈاکٹر عظیم الدین، ڈاکٹر زبیر شیخ، جناب اسداللہ خان اور دیگر اہم شخصیات نے بھی شرکت فرمائی، جمعیت العلماء کےایک نمائندے نے حافظ ندیم صدیقی صاحب کی نمائندگی کی، نیز بزرگ عالم دین مولانا ظفر حسان صاحب ندوی کا پیغام بھی کانفرنس میں پڑھ کر سنایا گیا۔ کانفرنس کی نظامت مولانا انصار زبیر محمدی اور مولانا حمید اللہ سلفی نے کی اور صدارت مولانا عبدالسلام سلفی امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی نے فرمائی۔ کانفرنس کے مہمان خصوصی عالیجناب پرم بیر سنگھ صاحب (کمشنر آف پولیس ضلع تھانہ) تھے۔ کانفرنس میں ملک کے مختلف حصّوں کے سیلاب زدگان کے لیے بڑھ چڑھ کر تعاون کی دردمندانہ اپیل کی گئی.اور ملک کے امن وامان ،ترقی اور بھائی چارہ کے لیے دعائیں کی گئیں اور عالم اسلام کے مظلوم مسلمانوں کو بھی دعاؤں میں یاد کیا گیا اور حرمیں شریفین کے خلاف کی جانے والی کسی بھی سازش کو سختی کے ساتھ مسترد کیا گیا. اور حرمین شریفین اور حجاج کرام کی بے مثال خدمت پر حکومت سعودی عرب کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا.

آخر میں کانفرنس کے کنوینر جناب مولانا عبدالجلیل صاحب انصاری نے تمام شرکائے اجلاس کی خدمت میں ہدیۂ تشکر پیش فرمایا اور بارش کی شدت کے باوجود بھاری تعداد میں شریک کانفرنس ہوکر اسے کامیاب بنانے پر جملہ حاضرین کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور انہیں کے دعائیہ کلمات پر کانفرنس کا اختتام ہوا۔

اسلام کے پیغام امن وانسانیت کی توضیح اور عالمی بھائی چارہ کے فروغ کے لئے تحفظ شریعت کانفرنس

ہمارا یہ دور فتنوں اور شدید ترین آزمائشوں کا دور ہے جس میں دنیائے انسانیت گوناگوں مسائل ومشکلات سے دوچار ہے، کہیں جنگیں مسلط ہیں، کہیں فرقہ وارانہ جھگڑے کھڑے ہیں، کہیں علاقائیت باعث نزاع بنی ہوئی ہے، کہیں اقتصادی مسائل درد سر بنے ہوئے ہیں، کہیں کرنسی کا بحران ہے، اور ان کے پیچھے آئے دن نت نئے المیے جنم لیتے رہتے ہیں، ان دنوں ملک شام اور عراق میں خصوصی طور پر انسانیت سوز حرکتیں ہورہی ہیں، پورا خطہ لہولہان ہے، عالمی اور علاقی طاقتیں اپنے مفادات کے لئے بے حساب خونریزی کی مرتکب ہوئی ہیں، ادھر ہمارے ملک میں بھی مسلمانوں کو بار بار نئے نئے مسائل میں الجھا دیا جاتاہے، کبھی باہمی فرقہ واریت کو ہوادی جاتی ہے اور مسلمانوں کومختلف خانوں میں تقسیم کرکے اسلام دشمن طاقتیں اپنے ایجنڈوں کی تکمیل چاہتی ہیں، کبھی ان کے طویل جائز مطالبوں کو مسترد کرکے ان کی الجھنوں میں اضافہ کیا جاتاہے، ان دنوں عورتوں کی ہمدردی کے نام پر مسلم پرسنل لاء کو نشانا بنایا گیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی یہ ساری مشکلات الھی منہج اور ہدایات سے دوری کانتیجہ ہیں، جبکہ ربانی تعلیمات میں جس کی نمائندگی اسلام کرتا ہے ہر طرح کے خیر، امن ،خوشحالی ، باہمی روداری اورحقوق کی پاسداری کی ضمانت ہے۔

ضرورت ہے کہ اس نازک وقت اور مشکل حالات میں اسلام کی صحیح رہنمائی سے لوگوں کو روشناس کرایا جائے اور انہیں اس کی اہمیت کا احساس دلایاجائے، کیا عجب کہ لوگ اپنی محرومیوں کے خاتمے اور اپنے درد بھرے حالات سے نجات کے لئے اس کی تعلیمات سے استفادہ پر آمادہ ہوجائیں اور یہ کوشش امت مسلمہ کالازمی فریضہ بھی ہے، اسی لئے صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی شریعت اسلامیہ کی بیش قیمت تعلیمات اور اس کی جامع ہدایات کو نمایاں کرنے کے لئے اپنا سالانہ اجلاس عام ’’تحفظ شریعت کانفرنس‘‘ کے نام سے بتاریخ ۱؍جنوری ۲۰۱۷ء؁ بروز اتوار بعد نماز عصر تا شب دس بجے بمقام صوفی عبدالرحمان گراؤنڈ (جھولا میدان) بائیکلہ بتعاون جامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ زیر صدارت مولانا عبدالسلام صاحب سلفی امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی منعقد کررہی ہے جس میں ان شاء اللہ مشہور ومعروف مقامی وبیرونی علمائے کرام اور مشائخ گرامی کے پرمغز اور منور خطابات ہوں گے یہ تفصیلات مولانا محمد مقیم صاحب فیضی صدر مجلس استقبالیہ اور کنوینر کانفرنس مولانا عبدالجلیل صاحب انصاری مکی نے اپنی مشترکہ پریس ریلیز میں بیان کی ہیں۔

اور انھوں نے ملت اسلامیہ کے تمام افراد سے بلاتفریق شرکت کی اپیل کی ہے۔

میڈیا سیل صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی

پریس نوٹ : بموقع اجلاس عام و حج تربیتی کیمپ 14 ؍ اگست 2016ء ، مطابق 10 ؍ ذی قعدہ 1437ھ

بمقام : جامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ ، ممبئی ، بوقت : بعد نماز عصر تا عشاء

اسلام دینِ رحمت ہے جو رب رحمٰن و رحیم کی جانب سے رسول رحمت العالمین پر نازل کیا گیا ہے ۔ اس رسول رحمت کے ساتھیوں کی نمایاں ترین صفت قرآن میں رحماء بینھم ( ایک دوسرے پر رحم کرنے والے) بیان ہوئی ہے ۔ اور اس رسول کے امتیوں کا معاملہ ایک دوسرے پر رحم کرنے کے حوالے سے ایک جسم کی مانند بیان کیا گیا ہے کہ جسم کا ایک حصّہ بھی تکلیف میں مبتلا ہوتو پورا کا پورا جسم بے قرار ہوجاتا ہے ۔رسول رحمت صلی اللہ وعلیہ وسلم کی سیرت اور آپ کے اصحاب کے تعامل سے بھی یہ حقیقت نمایاں ہوتی ہے کہ مسلمین کے ساتھ ساتھ غیر مسلمین سے بھی ان کا تعلّق ہمیشہ حسن سلوک اور خیر خواہی کا رہا ہے ۔ غیر مسلمین کے ساتھ ان کے کریمانہ اخلاق ہی دین کی دعوت کا سب سے موثّر وسیلہ بنے ۔ رحمت ہی اس دین کی سب سے بڑی پہچان ہے۔ دین کی ایسی ہر تعبیر غلط ہے جو مجموعی طور پر "رحمت" نہ ہو۔

پچھلے کچھ سالوں میں عالمی سطح پر بالعموم اور ملکی سطح پر بالخصوص جس قسم کی سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیںان کے نتیجے میں دین پر اس کے مخالفین کی طرف سے سب سے زیادہ حملے اس کی رحمت والی شبیہ پر کیے گئے ہیں اور اسی کومسخ کرنے کی سب سے زیادہ کوشش کی گئی ہے۔ داعیان اسلام کے لیے وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے کہ وہ اپنے اقوال واعمال اور دعوت و اخلاق میں اسلام میں رحمت کے ان زایوں کو نمایاں کرنے کی کوشش کریں جن کو مخالفین کے پروپیگنڈہ نے دھندلا کر رکھ دیا ہے ۔

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی اسلام کی دعوت رحمت عام کرنے اور اس کی صورت مسخ کرنے کے لیے کی جارہی ظالمانہ کاروائیوں سے پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے جامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ میں ایک روزہ اجلاس عام کا انعقاد کررہی ہے ۔ پروگرام کا ایک خصوصی سیشن حجاج کی تربیت کا ہوگا۔ جس کا مقصود حج کاارادہ رکھنے والے حجاج کو حج کے مسنون طریقہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر حج کی تعلیم اور اس کی حکمتوں کا آشکارا کرنا ہے۔ حج ایک طرف جہاں اللہ رب العالمین کی بارگاہ میں بندوں کی جانب سے ایک انفرادی اور اجتماعی دونوں سچ پر ایک عظیم عبادت ہے وہیں دوسری جانب امّت کے اتّحاد اور امن و مساوات کی عظیم تعلیم بھی ہے ۔ نیز اسلام کی انسانیت نوازی ، رواداری اور انصاف دوستی کی بنیاد بھی ہے ۔

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی تمام برادران اسلام کو اس اہم اجلاس میں شرکت کی دعوت دیتی ہے ۔بالخصوص حجاج کرام کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اجلاس میں شریک ہوکر مستند علماء سے معتبر حوالوں کے ساتھ حج کے مناسک کی ادائیگی کی تربیت حاصل کرلیں ۔ مزید یہ کہ حج کے عظیم موقع پر سارے عالم اسلام کے ساتھ ساتھ اپنے ملک اور اپنی قوم کی سلامتی اور امن کے لیے بھی خصوصی دعائیں کریں ۔

اللہ ہمارے اعمال کو اخلاص اور اخلاص کو قبولیت کے شرف سے نوازے ۔

ڈاکٹر ذاکر نائک اسلام کے داعی اور امن کے علمبردار ہیں۔صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی

ملکی اور عالمی سطح پر اسلام کی دعوت اور دفاع کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب کی خدمات قابل قدرومعترف ہیں ۔یہ بیان صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے امیر مولانا عبد السلام سلفی نے ایک پریس ریلیز میں دیا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ اسلام اور جہاد کی تشریح میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے اسلوب میں نئی نسل اورجدید تعلیم یافتہ طبقے کو بڑی حد تک غلط فہمیوں سے بچایا کر مطمئن کیا ہے جہاد کے نام پر دہشت گردانہ جنونی اور حیوانی عمل کی تردید میں ان کا کردار نمایا ں ہے ۔دہشت گردی کی ذہنیت پیدا کرنے یا اس ذہنیت کو سپورٹ کرنے کا ان پر الزام تاریخ کا بہت بڑا جھوٹ ہے جماعت اہل حدیث ملک وملت کے تمام انصاف پسندوں کے ساتھ ان کا دفاع کرنے میں پیچھے نہیں ہے ۔

میدان کار کے ہر فرد اور طبقہ کے ساتھ اختلاف ہوتا ہے اور حق کی خاطر دلائل کے ساتھ اصولی اختلاف ضروری ہے تاکہ حق اپنی اصل شکل میں نمایا ں رہے ۔لیکن ملت کے اتحاد، دعوت الی اللہ اور امن کی کوششوں کے مشن کو نقصان پہنچانا یہ منافقت اور گندی سیاست ہے ۔اس لئے اس طرح کی ہر کوشش کسی بھی جہت سے ہو افسوس کے ساتھ قابل مذمت ہے ۔

آفس سکریڑی : دفتر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کی پیام انسانیت کانفرنس

مکرم ومحترم! حضرات گرامی۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ان شاء اللہ مورخہ ۹-۱۰؍ جنوری ۲۰۱۶؁ء بروز ہفتہ واتوار بمقام جھولا میدان صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے زیر اہتمام پیام انسانیت کانفرنس اور سمپوزیم بعنوان اسلام اور رواداری کا انعقاد کیا جارہا ہے باقی تفصیلات ان شاء اللہ جلدہی منظر عام پر آجائیں گی۔

شائع کردہ شعبہ دعوت صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی

محمد مقیم فیضی (نائب امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی ونگراں شعبہ دعوت)

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے مسابقے میں شرکت کرنے والے اداروں کے ذمہ داران توجہ فرمائیں

محترم ومکرم حضرات گرامی!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

: گزارش ہے کہ حسب ذیل امور کا خیال رکھیں

(۱) رجسٹریشن کی آخری تاریخ ۱۵؍ نومبر ۲۰۱۵؁ء ہے۔

(۲) مسابقے کے دوگروپ ہیں اور ہر گروپ کے چار موضوعات ہیں اور ہر موضوع کے لئے کسی بھی مدرسے کے مقررہ درجات کا ایک ہی طالب علم قبول کیا جائے گا، اس طرح ایک مدرسے یا اسکول سے کل آٹھ طلبہ ہی شریک مسابقہ ہوسکتے ہیں۔

(۳) ایک طالب علم صرف ایک ہی موضوع کے لئے قبول کیا جائے گا۔

(۴) شرکت کرنے والے طلبہ کے نام مقررہ موضوع کی تفصیل کے ساتھ لیٹرہیڈ پر ادارے کی مہر کے ساتھ جمع کرادیں۔ وجزاکم اللہ خیرا وتقبل جھودکم۔

اسلام رواداری، حسن اخلاق اور اعلیٰ ترین انسانی قدروں کا علمبردار

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کا سمپوزیم بعنوان اسلام اور رواداری اہم ترین پیغامات پر اختتام پذیر

مؤرخہ ۱۰؍جنوری ۲۰۱۶ء؁ بروز اتواربمقام محفل ہال زیر اہتمام صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی ومسجد بائیکلہ اہل حدیث جماعت مومن پورہ اسلام اور رواداری کے عنوان سے منعقد سمپوزیم گرانقدر خطابات اور پیغامات پر اختتام پذیر ہوا۔ پروگرام کی صدارت مولانا عبدالسلام سلفی نے اور نظامت مولانا محمد مقیم فیضی نے کی، سمپوزیم میں مختلف علمی تنظیموں کے نمائندہ علماء کرام کے علاوہ متعدد سماجی، تعلیمی، اور سیاسی شخصیات نے شرکت کی، شرکاء میں بھانو پرتاپ صاحب برگے (اسٹنٹ پولس کمشنر اے ٹی ایس پونہ) ، ڈاکٹر عبدالقیوم صاحب مدنی، مولانا ظفر الحسن صاحب مدنی، مولانا شمیم احمد خلیل صاحب مدنی، مولانا ابوظفر حسان ندوی، مولانا رضاء اللہ عبدالکریم مدنی، مولانا محمود دریا آبادی، برادر ابوزید ضمیر، عبدالقیوم لکڑا والا، سلیم کوڈیا، مولانا ارشد فہیم الدین مدنی، مولانا عبدالغفار سلفی، جناب ہارون صاحب موزہ والا، ڈاکٹر محمد علی صاحب پاٹنکر، جناب فاروق انصاری صاحب، جناب سرفراز آرزو صاحب، جناب راشد خان صاحب، مولانا فضل الرحمن محمدی صاحب، مولانا عنایت اللہ سنابلی مدنی، مولانا جلال الدین فیضی وغیرہ قابل ذکر ہیں، سیاسی شخصیات میں جناب وارث پٹھان صاحب اور جناب امین پٹیل صاحب نے پروگرام میں شرکت کی۔

اسٹنٹ پولس کمشنر نے کہا کہ اے، ٹی، ایس اور پولس محکموں اور مسلم کمیونٹی کے درمیان کمیونیکیشن گیپ بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اس لئے یہ فیصلہ ختم کرنے کی ضرورت ہے، محمد ﷺ سے بڑھ کر دنیا میں کسی بھی دھرم کا کوئی رہنما روادار نہیں تھا، عفودرگذر تو آپ کی نمایاں صفات میں سے تھے۔ آپ نے دنیائے انسانیت کو اخلاق کا ایسا روشن عملی درس دیا جو اپنی مثال آپ ہے، کچھ لوگ اپنے مقاصد کے لئے جنتا میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ورنہ ہمارے بھارت میں رواداری ویکجہتی عام تھی اس کی اعلیٰ مثال یہ ہے کہ شیواجی مہاراج کے انتہائی اہم اور کلیدی عہدوں پر کئی مسلمان فائز تھے اور یہی معاملہ مسلم حکمرانوں کا بھی تھا۔ آج اس طرح کے پروگراموں کی بڑی اہمیت ہے اس کے ذریعہ محبت کا پیغام عام ہوتاہے۔ علمائے کرام نے قرآن وسنت اور تاریخ اسلامی کے حوالے سے مسلمانوں کی رواداری ، محبت، ایثار اور اعلیٰ اخلاق اور عدل وانصاف کے بہت سے روشن نمونے پیش کئے اور فرمایا کہ اسلام ظلم وزیادتی اور دہشت گردی کی ہرصورت کو حرام قراردیتاہے، اسلام میں دیگر تہذیبوں کی طرح کوئی تناقض نہیں پایا جاتاکہ ایک طرف تو یہ شراب، جوا، اور زناوغیرہ کی برائی بھی کرتی ہیں پھر ان چیزوں کو قانونی جواز بھی فراہم کرتی ہیں، اور ان کے لئے لائسنس جاری کئے جاتے ہیں۔ جبکہ اسلام جن چیزوں کو برا کہتا ہے اسے کلی طور پر ممنوع قراردیتا ہے اور گناہوں کے اسباب پر بھی پابندی لگادیتاہے، اسلام نے خود ساختہ معیاروں پر اونچ نیچ اور چھوت چھات کا خاتمہ کردیا ہے۔ اور معاشرے کے ظالمانہ معیاروں کو عدل وانصاف سے بدلنے میں اعلیٰ کارنامے انجام دیئے ہیں، اسلام نے مجرموں کو سخت سزائیں اس لئے دی ہیں تاکہ جرائم کا خاتمہ ہو اور امن وامان کا دور دورہ ہو۔ آج اسلام اور مسلمانوں کو اس لئے خاص طورپر نشانہ بنایا جارہا کیونکہ مسلمانوں پر ہر طرح کے ظلم وستم اور زیادتیوں کے باوجود اسلام دنیا کا سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلنے والا مذہب ہے اسلام کی اخلاقی خوبیوں اور اعلیٰ انسانی اصولوں کی اس سے بڑھ کر کیا مثال ہوسکتی ہے کہ نسلیں گذر گئیں خود ہندوستانی غیر مسلموں کی ایک بھاری تعداد نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا، آج انہیں کی نسلیں صدیوں سے مسلمان چلی آتی ہیں، اسلام کی رواداری میں کسی کلام کی گنجائش نہیں ہے البتہ مسلمانوں میں کمی یہ ہے کہ وہ غیرہ مسلموں میں اسلام کا صحیح تعارف کرانے میں بہت پیچھے ہوگئے ہیں اور مسلم معاشرہ میںکچھ ایسے عناصر بھی ہیں جو منفی اثر چھوڑ تے ہیں اور داخلی طور پر مسلکی تعصب اور تقسیم اور اس کے پیچھے ہونے والی نا انصافیاں مسلم سماج کی کمزوریوں کی علامت ہیں جن سے دامن چھڑانا بہت ضروری ہے اور اس کے لئے مسلمانوں کو عقیدہ توحید میں واقع خلل اور قرآن وسنت سے روگردانی کی روش کو بدلنا ہوگا اور سماج ومعاشرے میں پھیلی ہوئی جہالت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ اسلام میں داعش جیسی تنظیموں اوران کی وحشیانہ حرکتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اسلام ہر طرح کی دہشت گردی اور ظلم وزیادتی سے بری ہے۔ محفل ہال سامعین سے کھچاکھچ براتھا نماز ظہر اور کھانے کے بعد پیام انسانیت کانفرنس جھولا میدان کی تیاری کے لئے مجلس برخاست کردی گئی۔

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کی دوروزہ پیام انسانیت کانفرنس

توحید، اتباع کتاب وسنت، بھلائیوں کے فروغ، برائیوں کے خاتمے اور رواداری ومحبت کے پیغامات کے ساتھ مکمل ہوئی

بتاریخ ۱۰؍جنوری ۲۰۱۶؁ء صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی ومسجد اہل حدیث بائیکلہ اہل حدیث جماعت مومن پورہ کے زیر اہتمام جھولا میدان بائیکلہ میں منعقد دوروزہ پیام انسانیت کانفرنس اہم ترین پیغامات پر بخیر وخوبی اختتام کو پہنچی، فرزندان توحید نے ہزاروں کی تعداد میں بعد نماز عصر ہی جھولا میدان کو کھچا کھچ بھردیا تھا اور تا اختتام کانفرنس مجمع پوری دلچسپی اور انتہائی روح پرور ماحول میں علمائے کرام کے خطابات سے مستفید ہوتارہا کانفرنس کی صدارت امیر جمعیت مولانا عبدالسلام سلفی نے اور نظامت مولانا عبدالجلیل انصاری مکی اور مولانا عبدالحکیم مدنی نے فرمائی اور خطبۂ استقبالیہ نائب امیر جمعیت مولانا محمد مقیم فیضی نے پیش کیا۔ فاضل مقرر ابوزید ضمیر نے اسلامی معاشر ے میں علماء کی اہمیت اور کردار کو اجاگر کرتے ہوئے علماء اور عوام کے رابطے کو مضبوط بنانے پر زوردیا بالخصوص نوجوانوں کو گمراہی اور عاجلانہ وجذباتی اقدامات سے بچانے کے لئے اہل علم سے جڑنے کو وقت کا اہم ترین فریضہ قراردیا۔ مولانا یاسر الجابری مدنی نے معاشرے میں نوجوانوں کی اہمیت اور ان کی صحیح تربیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ آج بہت سی اسلام مخالف قوتیں پوری دنیا میں مسلم نوجوانوں کو ورغلاکران سے کچھ جذباتی اقدامات کرانا چاہتی ہیں تاکہ مسلم معاشرے میں انتشار برپا ہو اور اس فساد اور جنگی ماحول میں ان کے مفادات پورے ہوں اس لئے مسلم نوجوانوں کو بہت زیادہ چوکنا اور ہشیار رہنے کی ضرورت ہے نیز میڈیا کے جدید وسائل کے شر سے بھی خود کو بچانا ضروری ہے، ڈاکٹر عبدالقیوم مدنی بستوی نے توحید کے ثمرات وبرکات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ عقیدہ توحید اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے اور اسی کی تکمیل سے معاشرے میں امن وامان اور خوشحالی کا دور دورہ ہوتا ہے مسلمانوں کی کمزوری اور زوال کا سب سے بڑا سبب توحید سے دوری اور اس کے تقاضوں کی تکمیل میں کوتاہی ہے، مولانا ارشد فہیم الدین مدنی نے فرمایا کہ سلفی دعوت بعینہ اسلام کی دعوت ہے اس لئے اس میں رواداری اور تحمل کا سب سے زیادہ پایا جانا بالکل فطری ہے، سلفی منہج میں تشدد، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور داعش جیسی تنظیموں کو سلفیت کی طرف منسوب کرنا حددرجہ ظلم وناانصافی اور سلفیت سے عدم واقفیت کا نتیجہ ہے، سلفیت میں عدل وانصاف اور امن وانسانیت کی بنیادیں اتنی مستحکم ہیں کہ اس کے متعلق کوئی اور تصور محال ہے۔ مولانا رضاء اللہ عبدالکریم مدنی نے دلائل کی روشنی میں بدعتوں کی قباحت کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ بدعتیں کسی بھی دین کے لئے زہرہلاہل ہوتی ہیں اور اس کی اصل تعلیمات پر پردہ ڈال دیتی ہیں اس لئے امت کمزور ہوجاتی ہے، بدعتوں کے فروغ میں ضعیف وموضوع حدیثوں کے چلن اور اپنوں اور غیروں کی اندھی پیروی کا بڑا عمل دخل ہوتاہے اور اس کا سب سے بڑا سبب جہالت ہے اس لئے مسلمانوں کو قرآن وسنت کی تعلیمات سے جوڑنے کی سخت ضرورت ہے ۔ مولانا ظفر الحسن مدنی نے معاشرے میں اتحاد کی بنیادوں پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اس کے لئے قبول حق اور ہر طرح کے تعصب اور ظلم سے بالاتر ہونا لازم ہے، خلاف حق باتوں کے ذریعہ عوام میں کنفیوژن پیدا کرنا، حق کو دبانا اور غلط فہمیوں اور غلط بیانوں کا عام ہونا مسلم معاشرے کی کمزوری اور تفرقہ وتقسیم درتقسیم کا بڑا سبب ہے۔آجکل کچھ بزرگان دین سنت اور حدیث میں فرق کا شوشہ چھوڑ رہے ہیں جبکہ خیرالقرون کے ائمہ وفقہاء کے یہاں اس تفریق کا کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ آج سب سے زیادہ ضرورت سنجیدگی او ر باہمی انصاف کی ہے۔

مولانا عبدالسلام سلفی اور ذمہ داران صوبائی جمعیت نے کانفرنس کی عظیم الشان کامیابی پر جماعت اہل حدیث مومن پورہ کے ذمہ داروں، ٹرسٹیان مسجد اہل حدیث اور محلے کے نوجوانوں کو خصوصی مبارکباد پیش کی جنھوں نے کانفرنس کی کامیابی کے لئے دن رات ایک کردیا تھا اور تمام احباب جماعت کا شکریہ اداکیا۔ کانفرنس میں ڈاکٹر سعید احمد فیضی، مولانا انور یوسفی، مولانا عبیداللہ سلفی، مولانا عنایت اللہ مدنی، مولانا الیاس سلفی، مولانا عبدالستار سراجی،مولانا جلال الدین فیضی، مولانا کفایت اللہ سنابلی، مولانا عاطف سنابلی، مولانا کمال الدین ندوی اور ائمہ مساجد واساتذۂ مدارس وجامعات اور جمعیت کی ذیلی شاخوں کے امراء ونظماء کی بھاری تعداد موجود تھی۔ آخر میں کنوینر کانفرنس مولانا عبدالجلیل مکی نے اظہار تشکر فرمایا اور دس بجے رات پیام انسانیت کا نفرنس اپنے اختتام کو پہونچی۔

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کی دوروزہ پیام انسانیت کانفرنس کا پہلا دن اہم ترین خطابات پر اختتام پذیر

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی اور مسجد بائیکلہ اہل حدیث جماعت مومن پورہ کے زیر اہتمام مؤرخہ ۹؍جنوری ۲۰۱۶ء؁ بروز سنیچر ۵؍بجے شام جھولا میدان بائیکلہ میں زیر صدارت مولانا عبدالسلام سلفی (امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی) پیام انسانیت کانفرنس کا سامعین کی بھاری تعداد اور ملک کے مشاہیر اہل علم اور نامور خطباء کرام کے درمیان شاندار افتتاح ہوا۔

کاروائی کا آغاز حافظ غلام ربانی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا اور مولانا ظہیر الدین سنابلی نے اپنی نظامت میں جمعیت وجماعت کی ہمہ جہت دعوتی، سماجی، ملی اور ملکی خدمات کے تاریخی کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے کانفرنس کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔ مولانا عبدالغفار سلفی نے معاشرے میں نشے کی بڑھتی ہوئی لعنت اور اس کے سنگین اثرات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ اس خبیث عادت نے نہ جانے کتنی معصوم جوانیاں تباہ کردیں، نہ جانے کتنے گھرانے اس کے پیچھے برباد ہوگئے، اور اس کے بطن سے نت نئے المیوں نے جنم لیا، اسی لئے اسلام نے قلیل وکثیر کی تفریق کے بغیر ہر طرح کی نشہ آور اشیاء کو کلی طورپر حرام قراردے دیا ہے، اور اس پر قدغن لگانے کی ذمہ داری فرد، سماج اور حکومتوں میں سے ہر ایک پر عائد کردی ہے۔ اور اسے استعمال کرنے اور اسے فروغ دینے والے مجرموں اور ان کے معاونین کو لعنت کا مستحق گردانتے ہوئے ان کے لئے سخت سزائیں تجویز کی ہیں۔ ایک مسلم کے لئے تو اسلام میں نشہ آور چیز کے استعمال کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لئے معاشرے کو اس لعنت سے نجات دلانے میں مسلمانوں کو اپنا کردار بھرپور اداکرنا چاہئے، اور اس کے لئے ہمہ وقتی مہم چلانی چاہئے۔ نشست کے صدر مولانا عبدالسلام سلفی نے کانفرنس کے مقاصدپر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ جماعت اہل حدیث ممبئی کی تاریخ میں جھولا میدان کے اجلاس اور سالانہ کانفرنسوں کی ایک شاندار روایت رہی ہے جن کے ذریعہ اسلام کے پیام امن وانسانیت اور دعوت توحید واتباع کتاب وسنت اور مسلکی تعصبات سے بلند ہوکر تسلیم وتائید حق کی آواز یہاں سے سال بہ سال بلند ہوتی رہی ہے اور اس کے اثرات دورس ثابت ہوئے ہیں۔ اور ملک وملت کی بے لوث خدمت، بھائی چارہ اور رواداری ومحبت کے پیغامات اس اسٹیج سے عام ہوتے رہے ہیں، الحمدللہ آج تک یہ سلسلہ قائم ہے اور ان شاء اللہ مستقبل میں بھی برقرار رہے گا۔

دوسری نشست کی صدارت مولانا رضاء اللہ عبدالکریم مدنی نے کی اور تلاوت قاری ہدایت اللہ اشاعتی نے فرمائی۔ مولانا عبدالعظیم مدنی نے فرمایا کہ اسلام میں خواتین کے حقوق اوران کی ذمہ داریاں ان کی فطرت سے پوری طرح ہم آہنگ ہیں، دنیا کی برگشتہ اور دین بیزار تہذیبوں کے برعکس یہاں کسی افراط وتفریط کے بغیر اسے اس کا صحیح مقام عطا کیا گیا ہے، آج سماج ومعاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حیائی اور انارکی اور دین بیزاری کی روش میں اسلامی خواتین کا کردار بہت اہم ہے بلکہ اگریہ کہا جائے کہ سب سے اہم ہے تو بیجانہ ہوگا کیونکہ ماں کی گود انسان کا پہلا مدرسہ ہے اس لئے معاشرے کو اچھے انسان اور سچے مسلمان یہیں سے دستیاب ہوسکتے ہیں اور مسلم ماؤں کو شیطانی پروپیگنڈوں اور جھوٹی ومصنوعی چمک دمک سے بے نیاز ہوکر اپنا کام کرتے رہنا چاہئے۔ بزرگ عالم دین مولانا شمیم احمد خلیل سلفی نے سود کی تباہ کاریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے اسے خود غرضی، مفاد پرستی اور انسان دشمنی کا آئینہ دار قرار دیا، اور فرمایا کہ اسلام کے اقتصادی نظام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور سودپر مبنی کاروبار پر چونکہ اللہ کی لعنت برستی ہے اس لئے ہو ہر طرح کے خیروبرکت سے عاری ہوتاہے اور اس کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ مولانا عبدالقیوم بستوی صاحب نے فرمایا کہ دنیا کا خالق اور اس کی تمام ضرورتوں کا پورا کرنے والا تنہا اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لئے بندوں کی عبادت کا مستحق بھی تنہا وہی ہے، اس لئے تمام انبیاء کی دعوت توحید سے ہی شروع ہوتی رہی ہے اور شرک دنیا کی بہت بڑی ناانصافی اور ظلم ہے اور اللہ تعالیٰ اس معاشرے کو امن، خوش حالی اور برکتوں سے محروم کردیتا ہے جو توحید کے تقاضوں کو پامال کرنے لگتاہے۔ مولانا ظفر الحسن صاحب مدنی نے عالمی منظرنامے پر بکھرے خوں ریز مناظر دردوالم اور انسانی المیوں کی نت نئی داستانوں کے تناظر میں دین رحمت کے اعلیٰ اقدار پر مبنی اصولوں پر روشنی ڈالی جو عدم وانصاف اور انسانیت دوستی پر قائم ہے، جہاں دوست ودشمن کی تمیز کے بغیر ہر ایک کے ساتھ انصاف کا حکم دیا گیا ہے اور امن عالم کی مضبوط بنیادیں قائم کی گئی ہیں، اور اسلام ہر طرح کی ظلم وزیادتی اور دہشت گردی کو حرام قرار دیتا ہے، مگر آج افسوس کی بات یہ ہے کہ دوسروں کے ظلم وجبر کو مسلمانوں کے سرتھوپ دینے کا چلن عام ہوگیا ہے اور اس کے ردعمل میں کبھی کبھی نامناسب صورت حال کا بھی سامنا ہوتاہے مگر اسلام میں معصوم جانوں کی بے حرمتی اور پامالی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اگر کوئی اسلام کے نام پر کہیں بھی کسی طرح کی دہشت گردی کرتاہے تو اسلام اس سے بری ہے اور عالم اسلام کا کوئی بھی معتبر عالم اس کی اجازت نہیں دے سکتا ہے۔

کانفرنس میں صدر مجلس استقبالیہ مولانا محمد مقیم فیضی، ڈاکٹر عبدالقیوم مدنی بستوی، مولانا محمد امین ریاضی، مولانا الطاف حسین فیضی، ڈاکٹر عبیدالرحمن مدنی اور دیگر بہت سے علماء کرام موجود تھے۔ آخر میں کنوینر کانفرنس مولانا عبدالجلیل انصاری نے اظہار تشکر فرماتے ہوئے اتوار ۱۰؍جنوری کو اسلام ورواداری سمپوزیم میں جوکہ محفل ہال مدن پورہ میں منعقد ہورہا ہے شرکت کی اپیل کی نیز کل شام کی نشستوں میں بھی شرکت کی اپیل کے ساتھ آج کی نشستوں کے اختتام کا اعلان فرمایا۔

جمعیت اہل حدیث ممبئی کے تعلیمی مظاہرے(نومبر2015) میں تقریبا ۵۰؍ مدارس کے ۳؍سو سے زائد طلباء شریک ہوئے۔

میں تقریبا ۵۰؍ مدارس کے ۳؍سو سے زائد طلباء شریک ہوئے مورخہ ۲۹؍نومبر ۲۰۱۵؁ء بروز اتوار بمقام جامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ زیر اہتمام صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی منعقد ہونے والے تعلیمی مظاہرے کے مقابلۂ قرأت، حفظ ادعیہ، تقریر اور سیرت کوئز میں شہرممبئی اور مضافات کے تقریباً پچاس مدارس اور اسکولوں کے تین سو سے زائد طلباء نے شرکت کی اور ہر ایک نے اپنی کاوشوں اور صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کیا۔ آٹھ گروپوں میں مختلف اداروں کے کہنہ مشق اور تعلیم وتربیت میں مہارت رکھنے والے ۲۴؍ مدرسین نے حکم کے فرائض انجام دئے جن کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں:مولانا عبدالرحمن سلفی ، قاری جاوید احمد حقی ، حافظ شعیب نوری، قاری عطاء الرحمن سلفی ، قاری ہدایت اللہ اشاعتی ، مولانا حافظ ظہیر الدین سنابلی ، مولانا ارشد سکراوی ، مولانا احسان اللہ مدنی ، مولانا عبدالستار سراجی ، مولانا عبیداللہ سلفی ، مولانا شمیم احمد مدنی، مولانا شعبان بیدار صفوی، مولانا محمد ایوب اثری، مولانا محمد یوسف عمری، مولانا سراج الحق عالیاوی، مولانا شاہ عالم رحمانی، مولانا عبدالکریم سنابلی، مولانا محمد صدیق سلفی، مولانا سعید احمد بستوی، مولانا محمود احمد فیضی (بنگالی مسجد)، مولانا محمود الحسن فیضی (رحمانیہ) اور انتظامات کے نگراں مولانا اسلم صیاد تھے۔

مسابقہ تمام موضوعات پر طلباء کی محنت کے ساتھ اپنے حسن ترتیب اور مقامی ذمہ داران کے حسن انتظام کے سبب بحمدللہ انتہائی کامیاب رہا۔ مسابقے کی کارروائی صلاۃ عصر تک جاری رہی اور بعد صلاۃ عصر جلسہ تقسیم انعامات میں اول، دوم اور سوم آنے والے ۲۴؍طلباء کو نقد انعام کے علاوہ ٹرافی، سرٹیفیکٹ اور اسکول بیگ متعدد بزرگوں، اعیان جماعت اور شہر کے معززین کے ہاتھوں دیئے گئے۔ ان کے علاوہ مسابقے میں شریک دیگر تمام طلباء وطالبات کی حوصلہ افزائی کے لئے انہیں بیگ وغیرہ تشجیعی انعامات سے نوازا گیا۔ جلسہ تقسیم انعامات میں متعدد اہل علم وفضل نے اپنے تاثراتی کلمات میں اس طرح کے مسابقوں کی اہمیت کا احساس دلایا اور صوبائی جمعیت کے اس اقدام کو سراہا۔

جلسے کا افتتاح ناظم جمعیت مولانا سعید احمد صاحب بستوی نے فرمایا اور صدر اجلاس مولانا عبدالسلام صاحب سلفی امیر جمعیت نے فرمایا کہ طلباء کے مسابقتی ذوق کو بلند کرنے کے لئے اس طرح کے مسابقوں کی اہمیت مسلم ہے، اس وقت ہمیں ملت کے نونہالوں کی صلاحیتوں کونکھار نے اور انہیں امت کے لئے زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانے کے لئے مختلف جہتوں سے مشترکہ جدوجہد کی بڑی ضرورت ہے، صوبائی جمعیت ان شاء اللہ تعلیم وتربیت کے شعبے میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس کے لئے اسے احباب جماعت اور بہی خواہان ملت کے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔

جمعیت کے نائب امیر اور شعبۂ تعلیم وتربیت کے نگراں مولانا محمد مقیم فیضی نے جامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ کے ذمہ داران کے علاوہ تعلیمی مظاہرے میں شریک تمام مدارس اور طلباء ،حکم صاحبان اور رضاکاروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ملت کے نونہال ہی اس کا مستقبل ہوتے ہیں اس لئے ملت کی تمام اکائیوں کو ان کی شخصیت سازی اور بہترین تعلیم وتربیت کے لئے پوری سنجیدگی اور احساس کے ساتھ آگے آنے کی ضرورت ہے۔ اس اجلاس میں جناب عبدالقیوم صاحب لکڑا والا، مولانا عبدالجلیل صاحب انصاری، ضلعی جمعیت اہل حدیث ساوتھ ممبئی کے ناظم مولانا منظر احسن سلفی، جناب محمد سلیم انصاری صاحب صدر ٹرسٹی جامع مسجد اہل حدیث مومن پورہ مولانا جلال الدین فیضی گوونڈی اور بہت سی اہم شخصیتیں شریک تھیں بعد صلاۃ مغرب ملک وملت اور عالم اسلام کے لئے امن وعافیت اور تعمیر وترقی اور ظلم وستم کے خاتمے کی دعاؤں کے ساتھ مجلس کا اختتام ہوا۔

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے مسابقے میں شرکت کرنے والے اداروں کے ذمہ داران توجہ فرمائیں

محترم ومکرم حضرات گرامی!

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

: گزارش ہے کہ حسب ذیل امور کا خیال رکھیں

(۱) رجسٹریشن کی آخری تاریخ ۱۵؍ نومبر ۲۰۱۵؁ء ہے۔

(۲) مسابقے کے دوگروپ ہیں اور ہر گروپ کے چار موضوعات ہیں اور ہر موضوع کے لئے کسی بھی مدرسے کے مقررہ درجات کا ایک ہی طالب علم قبول کیا جائے گا، اس طرح ایک مدرسے یا اسکول سے کل آٹھ طلبہ ہی شریک مسابقہ ہوسکتے ہیں۔

(۳) ایک طالب علم صرف ایک ہی موضوع کے لئے قبول کیا جائے گا۔

(۴) شرکت کرنے والے طلبہ کے نام مقررہ موضوع کی تفصیل کے ساتھ لیٹرہیڈ پر ادارے کی مہر کے ساتھ جمع کرادیں۔ وجزاکم اللہ خیرا وتقبل جھودکم۔

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کی ضلعی اکائیوں کے امراء ونظماء کا اجلاس اہم قراردادوں پر اختتام پذیر

آج مورخہ ۶؍ نومبر ۲۰۱۵ء؁ بروز جمعہ بعد نماز عصر دفتر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی واقع کرلا میں جمعیت کی ضلعی اکائیوں کے امراء ونظماء کا ایک اہم مشاورتی اجلاس منعقد ہوا جس میں مختلف قسم کے دعوتی، تنظیمی، ملی اور رفاہی منصوبے زیر بحث ومشورہ آئے اور ان کے متعلق متعدد تجاویز کو باتفاق آراء منظور بھی کیا گیا ہے جن کے نفاذ سے ان شاء اللہ جمعیت کی سرگرمیوں میں مفید اضافوں اور زیادہ استحکام کی امید کی جاتی ہے۔ اس اجلاس میں ملک میں عدم رواداری وعدم تحمل اور مخصوص ذہنیت کے حامل لوگوں اور گروہوں کی جانب سے اسلامی تشخص وشناخت کو نشانا بنانے اور زندگی کے تمام اہم شعبوں نصاب تعلیم ونظام تعلیم اور دیگر امور کو ایک مخصوص رنگ دینے حتی کہ ملت کے نونہالوں میں ارتداد کی لہر چلانے کی گوناگوں کاوشوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ملت کے قائدین اور علماء سے گزارش کی گئی کہ وہ امت کو بیدار اور اپنے دینی تشخص اور جمہوری حقوق کے تئیں حساس اور حسب ضرورت مناسب اقدامات کے لئے تیار رہنے کے لئے سنجیدہ لائحہ عمل بنائیں اور منظم ہوکر ان کی صحیح رہنمائی فرمائیں اور تمام قسم کے تحفظات سے بالاتر ہوکر ملت کے تشخص اور مشترکہ مفاد کے لئے متحد ہوکر جدوجہد فرمائیں۔

اجلاس کی صدارت مولانا عبدالسلام صاحب سلفی امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی اور نظامت محمد مقیم صاحب فیضی نائب امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی اور نگراں شعبۂ تنظیم نے کی ۔اجلاس کا آغاز امیر جمعیت کے درس سے ہوا جس میں انھوں نے منصبی ذمہ داریوں کو امانت قرار دیتے ہوئے احادیث کی روشنی میں بحسن وخوبی ادائیگی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ اور اس کے بعد ضلعی امراء ونظماء نے اپنی اپنی اکائیوں کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی۔

اجلاس کے شرکاء نے مرکزی حکومت اور اس کے وزیر اعظم نریندر مودی صاحب سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ اب تک کی تمام روایتوں کے خلاف مرکزی وزراء کی جانب سے فرقہ پرستوں کی سرپرستی اور غیر مناسب بیانات کے ذریعہ ملک کی جمہوری اقدار کی پامالی پر فوری قدغن لگائیں اور ملک کو کسی نا مناسب صورت حال سے دوچار ہونے سے بچائیں، اور ملک کے دانشوروں اور فنکاروں کے احتجاج کو نظر انداز نہ کریں کیونکہ ان کی آواز میں بھارت کی جنتا کی انسانیت بول رہی ہے۔لہٰذا اس کی قدر کریں اور وقت رہتے حالات پر قابو پانے کی کوشش کریں ورنہ یہ اقتدار چار دن کی چاندنی بن کر رہ جائے گا۔

معزز امراء ونظماء نے ادیبوں اور فنکاروں اور ملک کے باشعور طبقے کے احتجاج اور ایوارڈ واپس کرنے والے انسانی اقدار کے پاسداروں کے اقدام کو سراہتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ اور ملک سے ہمدردی اور محبت رکھنے والے ہر باشعور شہری سے اپیل کی کہ وہ ہر فرقہ پرستی کی ہرصورت کو رد کردیں اور فرقہ پرستوں کو اپنے مذموم مقاصد میں ناکام بنائیں۔

میڈیا سیل صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی

ائمہ ودعاۃکے تربیتی اجتماع کے ساتھ طلبہ کے درمیان مسابقات کا فیصلہ

مورخہ 4؍ستمبر 2015ء

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے دفتر واقع کرلا میں عہدیداران جمعیت کی ایک میٹنگ زیر صدارت مولانا عبدالسلام سلفی منعقد ہوئی جس میں مختلف تنظیمی، جماعتی اور ملی امور پر تبادلہ خیال ہوا اور جمعیت کی عظمت حرمین شریفین وحج تربیتی کانفرنس کی متوقع کا میابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے طے کیا گیا کہ ان شاء اللہ ائمہ ودعاۃ کا تربیتی اجتماع اور یک شبی اجلاس عام 11؍اکتوبر 2015ء کو مسجد اہل حدیث کاپڑیا نگر میں منعقد کیا جائے گا اور مکاتب اور پرائمری کے طلباء کے لئے مسابقہ قرات، تقریر، حفظ أدعیۃ اور سیرت کوئز کا انعقاد 29؍ نومبر 2015کو ہوگا۔

بعض أخباری بیانات کی روشنی میں گفتگو کرتے ہوئے مجلس میں شریک علماء کرام نے فرمایا کہ ایک مجلس کی طلاق ثلاثہ کے مسئلے پر ملت کے علماء کو بڑی سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بہت سے سنگین معاشرتی مسائل پیدا ہوتے ہیں جبکہ قرآن وسنت کے مطابق علمائے اہل حدیث کا موقف یہی رہا ہے کہ ایک مجلس کی طلاق ثلاثہ ایک ہی طلاق مانی جائے گی جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے جسے امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے اور اب تو ایک عرصہ گزرگیا ہے کہ بہت سے مسلم ممالک نے مسلک کی مخالفت کے باوجود آئے دن کی مشکلات اور مختلف خاندانوں میں کھڑی ہونے والی مصیبتوں سے بچنے کے لئے اس موقف کو درست تسلیم کرلیا ہے۔ چند دنوں قبل اخباری بیان کے مطابق مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بھی ایک مجلس کی بیک وقت دی جانے والی تین طلاقوں کو کتاب وسنت کی روشنی میں جرم قراردیا ہے اس لئے اسے بھی طلاق ثلاثہ کے متعلق اپنے موقف پر نظر ثانی کرنا چاہئے۔

میڈیا سیل صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی

عظمت حرمین شریفین و حج تربیتی کانفرنس کا مقصد حرمت حرمین اور حرمت انسانیت کے تقاضوں سے متعلق بیداری پیدا کرنا ہے۔

امیر جمعیت مولانا عبدالسلام سلفی اور مجلس استقبالیہ کے ذمہ داران مولانا محمد مقیم فیضی اور مولانا عبدالجلیل مکی نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ملت اسلامیہ کے دلوں میں حرمین شریفین کی بے پایاں عظمت اور دلی احترام مشہور ِزمانہ ہے، ساری دنیا کے مسلمان حسب استطاعت وتوفیق حج بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی کی زیارت کے لئے کشاں کشاں مکہ ومدینہ کی طرف کھینچے چلے آرہے ہیں، اس موقع پر امت کی اجتماعی اسپرٹ اور اسلام کے نظام جماعت بندی واجتماعات کا بھی بھرپور مظاہرہ ہوتاہے مگر اس بات کی ضرورت ہمیشہ محسوس کی جاتی ہے کہ بہت سے حجاج کو تربیت کی بیحد ضرورت ہے اور انہیں عبادات اور مناسک حج کی ادائیگی کی صحیح تعلیم کے علاوہ حرمت حرمین اور حرمت انسانیت کے تقاضوں کو بھی سمجھانے کی بڑی حاجت ہے، سعودی عرب کے بیمثال حسن انتظام اور خدمت حجاج کی عظیم ترین کاوشوں کے باوجود بعض لوگوں کی نظام وضبط اور اصولوں سے بے نیازی بسا اوقات پیچیدہ قسم کی مشکلات پیدا کردیتی ہے جس کی وجہ سے پریشانی عام ہوجاتی ہے اسی کے پیش نظر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی نے اپنے حصے کے کام کے طور پر ’’عظمت حرمین شریفین وحج تربیتی کانفرنس‘‘ کے انعقاد کا فیصلہ کیا ہے جو حج ہاؤس سی ایس ٹی روڈ میں ۳۰؍ اگست بروز اتوار ۴؍بجے شام تا دس بجے شب منعقد ہورہی ہے جس میں ملک کے نامور علماء وخطباء کے بیانات ہوں گے اور ان شاء اللہ عوام سے بڑی تعداد میں شریک ہونے اور علماء کرام کے بیانات سے مستفید ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔

حج ہاؤس میں عظمت حرمین کے عنوان سے صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کا عظیم الشان پروگرام

ہم ایرانی سازشوں اور داعشی خرافات کی پرزور تردید کرتے ہیں (مقررین)

رپورٹ : شعبان بیدار صفوی

؍اگست بروز اتوار صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے زیر اہتمام حج ہاؤس ممبئی میں عظمت حرمین شریفین اور حج تربیتی کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا۔ پہلی نشست بعد صلاۃ عصر مولانا عبدالسلام صاحب سلفی کی صدارت میں نماز مغرب تک جاری رہی۔ مولانا عزیز الرحمان محمدی نائب امام مسجد اہل حدیث ٹیمکر محلہ کی تلاوت سے اس نشست کا آغاز ہوا اور فضیلۃ الشیخ انصار زبیر محمدی نے ’’حج کیسے کریں‘‘ کے عنوان سے جہاں مفید باتیں سامعین کے گوش گزار کیں وہیں عملی طور پر مناسک حج کا تعارف بھی پیش کیا۔ دوسرا خطاب تھا ’’خدمت حرمین شریفین تاریخ کے آئینے میں‘‘ فضیلۃ الشیخ عنایت اللہ مدنی نے اس موضوع پر انتہائی مدلل اور صاف ستھرے انداز میں خدمت حرمین کی تاریخ شاہ فہد تک اجمالاً بیان فرمائی اس نشست کی نظامت فضیلۃ الشیخ سعید احمد بستوی نے کی۔

دوسری نشست بعد صلاۃ مغرب مولانا عبدالسلام کی صدارت میں دس بجے شب تک چلتی رہی۔ تلاوت وتذکیر اور حمدیہ نظم کے بعد فضیلۃ الشیخ مقیم فیضی (نائب امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی) نے خطبۂ استقبالیہ پیش فرمایا۔ موصوف نے انتہائی اختصار کے ساتھ جماعت اہل حدیث کی کارکردگی پر روشنی ڈالی۔ اثناء خطبہ آپ نے یہ بات بڑی وضاحت سے پیش کی کہ ’’جماعت اہل حدیث نے ہندوستان میں بیداری کی جو لہر پیدا کی انصاف پسند اہل دانش اسے نظر انداز نہیں کرسکتے فکر ونظر اور عقیدے کی اصلاح کا جو بیڑا اس جماعت نے اٹھایاتھا اسی کے اثرات ہیں کہ مسلمانوں میں ہندوانہ عقائد کا غلبہ کم ہوسکا۔ مولانا نے کہا ہم ایرانی سازشوں اور داعشی خرافات کی پرزور تردید کرتے ہیں۔ آپ نے واضح کیا کہ اہل حدیث کل بھی حفاظت حرمین کے لئے سب سے آگے تھا اور آج بھی اپنی جان قربان کرنے سے گریزنہ کرے گا۔ انھوں نے ہندوستان کے بوسیدہ نظام تعلیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مدارس میں احادیث وتفاسیر کی تعلیم کا جو غلغلہ بلند ہوا ہے یہ اہل حدیث کی دین ہے۔ دوسرا خطاب ڈاکٹر عبیدالرحمن مدنی کا تھا آپ نے ’’عظمت حرمین کی پامالی اغراض ومقاصد اور تاریخی شواہد‘‘ کے عنوان سے مختصر مگر مفید خطاب پیش کیا۔ مولانا نے ناقابل تردید تاریخی حوالوں سے ثابت کیا کہ روافش نے ایک زمانے میں حجراسود کو اکھاڑ کر دوسری جگہ منتقل کیا، حجاج کو قتل کیا اور نبی کی نعش کو دوسری جگہ منتقل کرنے کی ناکام کوششیں بھی کیں اور آج تک یہ حرمت بلاد حرمین کی پامالی کا منصوبہ بنارہے ہیں اور موقع پاتے ہی انجام دینے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔

برادرابوزید ضمیر نے ’’حجۃ الوداع کا پیغام‘‘ کے حوالے سے سماجی، معاشرتی اور اعتقادی مسائل کی سہل انداز میں تشریح پیش کی۔ اس کے بعد ظفر الحسن مدنی حفظہ اللہ نے حرمین کے حوالے سے گفتگو فرمائی مولانا نے مختلف اسالیب اور متعدد مناسبات سے اپنے موضوع کی وضاحت کی اور تاریخ اہل حدیث سے متعلق نادر ونایاب گوشوں کو بیان کرکے سامعین کو محفوظ کیا۔آپ نے تاریخی حوالوں کے ساتھ بتایا کہ حرم کا ایک دور وہ بھی گزرا ہے جب حاجیوں کی نہ جان محفوظ تھی نہ مال۔ انھوں نے واشگاف الفاظ میں کہا اہل حدیثوں نے اہل حرمین کی شدید غربت کے زمانے میں خدمت حرمین سے خوب خوب فیض حاصل کیا وہاں پانی اوراناج کا انتظام توکیا ہی ہندوستان میں چندہ کرکے حرمین میں تعلیم گاہوں کا بھی انتظام کیا اور بھی اہل حدیثان ہندوقت پڑنے پر اپنی جان ومال کے ساتھ حرمین کو ظلم وزیادتی، شرک کی گندگی اور ظاہری نجاستوں سے پاک رکھنے کے لئے سربکف حاضر ہیں۔

آخر میں شیخ عبدالسلام سلفی امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی نے انتہائی مختصر انداز میں صدارتی کلمات پیش فرمائے عقیدہ ومنہج پر زوردیتے ہوئے موصوف نے تمام علماء کرام اور شرکاء کانفرنس کا شکریہ اداکیا اور گزارش کی تمام لوگ مل جل کر جمعیت کے کاز کو آگے بڑھائیں۔

پروگرام میں بھیونڈی اور ممبئی کی تمام علمی شخصیتیں رونق اسٹیج رہیں جمعیت کے والینٹیرس نے بڑے ہی نظم وضبط کے ساتھ پروگرام کو منزل مقصود تک پہنچایا پورا ہال سامعین سے کھچا کھچ بھرا ہواتھا۔ جمعیت کی طرف سے تمام شرکاء کے کھانے اور ناشتے کا بھی انتظام تھا۔ پروگرام کی نظامت عبدالحکیم عبدالمعید مدنی نے فرمائی۔

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کی پریس ریلیز (04-07-2015)

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے امیر مولانا عبدالسلام سلفی نے اپنی ایک پریس ریلیز میں بڑھتی ہوئی خراب فرقہ وارانہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ریاستی اور مرکزی حکومتوں سے فرقہ پرست بے راہ روعناصر پر لگام کسنے کا مطالبہ کیا ہے اور موجودہ حکومتوں کی اقلیت مخالف اور دل آزار پالیسیوں کو ملک کی یکجہتی اور امن وخوشحالی کے لئے خطرہ شمار کیا ہے بالخصوص مہاراشٹر حکومت کی جانب سے مدارس اسلامیہ کے طلباء کو غیر اسکولی شمار کرنے کے فیصلے کو عاجلانہ اور عدل وانصاف کے خلاف شمار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران کی میٹنگ بلاکر مدارس کے شاندار اخلاقی وتعلیمی وتربیتی نظام کی خوبیوں کو سمجھنے کی کوشش کرے اور بلاسوچے سمجھے مسلمانوں کی دل آزاری سے باز رہے اور اگر وہ واقعی طلباء اور مدارس کی بہتری کی خواہاں ہے تو درست طریقے پر افہام وتفہیم سے کام لے اور اس کے لئے مناسب اقدامات کرے۔

پریس ریلیز ( ۲۰/ستمبر ۲۰۱۴ء )

مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کا اعلیٰ سطحی راحتی وفد چار روزہ دورہ کشمیر سے واپس لوٹا کشمیر دیکھ کر قیامت صغری کا منظریاد آگیا/ مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی

دہلی: ۲۰/ستمبر ۲۰۱۴ء

ریاست جموں و کشمیر میں سیلاب کی تباہی قیامت صغری سے کم نہ تھی ۔ جس میں سینکروں جانیں تلف ہوئیں۔،ان گنت مویشی ہلاک ہوئے۔ اربوں کی املاک تباہ ہوئیں، ہزاروں مکانات منہدم ہوئے، کھیتیاں برباد ہوئیں ، شہر ی و دیہی آبادی میں گندگیاںپسری ہوئی ہیں اور متعدد بیماریوں کو دعوت دے رہی ہیں، بڑے بڑے محلوں میں ہو کا عالم ہے، سیلاب کا طوفان تو تھم گیا ہے لیکن پانی کے جمائو نے آبادی کو تالابوں میں تبدیل کردیا ہے، ہر ہاتھ سوالی محسوس ہوتا ہے اور شہر تا دیہات باز آباد کاری کے منتظر ۔ ان حقائق کا اظہار مولاناا صغر علی امام مہدی سلفی ناظم عمومی مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند نے کل مورخہ۱۹/ ستمبر ۲۰۱۴ ء کو مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے اعلیٰ سطحی راحتی وفد کے ساتھ جموں و کشمیر کے چارروزہ دورہ سے لوٹنے پر کیا۔ موصوف گزشتہ ۱۶/ ستمبر ۲۰۱۴، کو مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ کشمیر گئے تھے جس میں ناظم مالیات مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند الحاج وکیل پرویز اور صوبائی جمعیت اہل حدیث گجرات کے ناظم مولانا شعیب میمن جونا گڑھی شامل تھے ، جہاں انہوں نے اکثر متاثرہ مقامات کا دورہ کیا ، متاثرین سے ملاقاتیں کیں، ان کے درمیان بلاتفریق مذہب و ملت عذائی اشیاء ادویہ اور کپڑے ، نقد ودیگر ضروری سامان تقسیم کیے اور ان کی دل جوئی کر کے آزمائش کی گھڑی میں صبرو شکیبائی کے ساتھ آگے بڑھنے کا حوصلہ بخشا۔

مولانا نے کہا کہ اب جب کہ سیلاب ختم ہوگیا ہے، بہت سارے مسائل اور چیلنجز کھڑے ہوگئے ہیں ۔ ان میں سب سے اہم صاف پانی، آبادی والے علاقوں کی صفائی ستھرائی ، بجلی ، غذائی اشیاء ادویہ کی فراہمی، اجڑے ہوئے مکانات کی تعمیر نو اور بے گھر لوگوں کی باز آباد کاری وغیرہ کا مسئلہ ہے۔ ایسے میں بری منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔انہوںنے مزید کہا کہ اس سب کے باوجود خو ش آئند بات یہ ہے کہ کشمیر کے لوگ مصیبت کی اس گھڑی میں بلاتفریق مذہب وملت باہم سیر و شکر پریشانیوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔

مولانا سلفی نے کہا کہ اس موقع پر صوبائی جمعیت اہل جموں و کشمیر بڑے پیمانے پر راحت رسانی کا کام انجام دے رہی ہے اور کشتیوں ، ٹرکٹروں اور دیگر ذرائع سے گھر گھر ریلیف پہنچا رہی ہے۔

ناظم عمومی نے کہا کہ ریاست کے باشندے ہمارے گراں قدر تعاون کے مستحق و متنظر ہیں۔ اس لیے وطن عزیز کے تمام باشندگان کو کشمیر کے مصیبت زدہ بھائیوں کی بھر پور امداد کرنی چاہئے۔

جاری کردہ : مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند

مولانا عبداللہ مدنی جھنڈانگری اور مولانا محمد اسحاق بھٹی کی وفات پر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے ذمہ داران کا اظہارِ افسوس

بشر بشر ہوتاہے، خوبیاں اور خامیاں تو ہر ایک کے ساتھ لگی ہوتی ہیں مگر جب کوئی ملت کا بہی خواہ داعی یا عالم اس دنیا سے رخصت ہوتاہے جس نے امت کی خدمت کا کوئی بھی گوشہ اور شعبہ سنبھال رکھا ہوتاہے تو ایسا لگتا ہے جیسے اپنے کلیجے کا کوئی ٹکڑا نکل گیا، اس خبر سے یقینا بہت دکھ ہوا کہ ملک نیپال میں منہج اہل حدیث کی نمائندگی اور خدمت کرنے والے ایک اہم صاحب علم وصاحب قلم اور مشہور خطیب مولانا عبداللہ جھنڈا نگری صاحب آج مورخہ ۲۲؍دسمبر ۲۰۱۶ء؁ کو اس دنیا سے علالت کے بعد رخصت ہوگئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

دوسری خبر جو عظیم صدمے کا باعث ہوئی وہ ایک ایسے باکمال اور رواں قلم کے مالک باوقار شخصیت کی وفات کی خبر ہے جو دہائیوں سے ملت اور ناموران ملت کی تاریخ مرتب کرتاآرہا تھا اور اس اکیلے شخص نے ایک جماعت کا کام کیا ہے، یہ ہیں عالم اسلام کے نامور مورخ اور مشہور اہل حدیث عالم دین مولانا اسحاق بھٹی صاحب جو ۱۵؍مارچ ۱۹۲۵ء؁ کو فرید کوٹ ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے اور بڑے بڑے علماء اور مشاہیر ملک وملت کی صحبت سے فیض اٹھایا اور اپنی علمی خدمات سے اسلامی اور اخلاقی کتب میں بیش بہا اضافہ فرمایا اور تقریباً چالیس کتابیں اپنے پیچھے چھوڑی ہیں، مولانا ایک مجاہد آزادی بھی تھے اور ہندوستان کے سابق صدر جمہوریہ گیانی ذیل سنگھ کے ساتھ جیل بھی جاچکے تھے، وہ پاکستان میں رواداری اور محبت کے بہت بڑے نمائندے تھے۔ ان کی وفات پر امام کعبہ ڈاکٹر عبدالرحمان سدیس اور دنیا کی بہت سی اہم شخصیات نے اظہار افسوس کیا ہے اللہ تعالیٰ ان دونوں علمائے دین کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور انھیں فردوس بریں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، اور ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے اور جماعت وملت کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے ۔ آمین

صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی کے امیر مولانا عبدالسلام صاحب سلفی، ناظم مولانا سعید احمدصاحب بستوی اور جملہ عہدیداران اور اراکین جمعیت ان کے پسماندگان کے غم میں شریک اور دعاگوہیں۔

شائع کردہ: محمد مقیم فیضی نائب امیر صوبائی جمعیت اہل حدیث ممبئی, ونگراں شعبہ دعوت ومیڈیا سیل

جدید کتب
رویت ہلال
اہم ویڈیو
دورۂ علمیہ میں رجسٹریشن کے لئے یہاں کلک کریں رجسٹریشن فارم